کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 137
کام ہو رہا ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی، شیخ رحمہ اللہ کی یہ پالیسی اور حکمت عملی بھی اسلامی ذہن رکھنے والوں کے لیے ایک بہترین نمونہ اور قابل تقلید مثال ہے۔ اسلام کی تعلیمات کا تقاضا بھی یہ ہے کہ حکومت کے مقابل میں باغیانہ روش اور تصاد م کا راستہ نہ اپنایا جائے کہ اس سے فساد میں اضافہ ہوتا ہے اور موہوم یا مفروضہ نتائج کبھی حاصل نہیں ہوتے۔
(7)شیخ کی ایک خوبی، عالم اسلام کے مسلمانوں اور ان کے معاملات ومسائل میں بھر پور دلچسپی اور ان کے ساتھ گہری ہمدردی کی تھی، اس اعتبار سے ان کا معاملہ ؎
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
کا آئینہ دار تھا، یہی وجہ تھی کہ دنیا بھر کے لوگ اپنے دینی اور دنیاوی معاملات لے کر ان کی خدمت میں آتے، شیخ نہ صرف ان سب کی باتیں سنتے بلکہ عملی طور پر جو کچھ کرسکتے تھے، وہ خود بھی کرتے اور جو کچھ حکومت کے دوسرے اداروں سے کرواسکتے تھے ان سے کرواتے، خود سعودی حکومت کی پالیسی بھی مسلمانان عالم کے مفادات کے تحفظ پر ہی مبنی ہے، شیخ کا یہ طرز عمل بھی تھا اور اس محاذ پر دونوں کا باہمی تعاون مسلمانان عالم کے مفادات کے تحفظ اور ان کی فلاح وبہبود کا ضامن تھا۔
(8)شیخ کی ایک خوبی، بدعات ومحدثات سے سخت نفرت تھی، یہی وجہ ہے کہ مختلف بدعات و محدثات کے رد میں ان کے متعدد مقالے ہیں جن میں سے بعض کتابچے کی شکل میں بھی شائع ہوئے ہیں۔
(9)حضرت الشیخ رحمہ اللہ کی یہ اور اس قسم کی دیگر بہت سی خوبیاں ہی تھیں جنہوں نے انہیں عوام و خواص حتیٰ کہ شاہی دربار تک میں بھی ہر دلعزیز اور مقبول بنا رکھا تھا، ہر چھوٹا بڑا، امیر اور غریب حتیٰ کہ ایک پاکباز مومن اور ایک فاسق وفاجر شخص بھی شیخ کا یکساں احترام کرتا تھا، طبقہ علماء میں مقبولیت کی یہ وسعت اور بے پناہی بہت ہی کم دیکھنے میں آئی ہے، پھر مقبولیت کا یہ عالم سعودی عرب تک محدودنہ تھا بلکہ پورے عالم عرب،