کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 136
کے خاتمے میں نہایت مؤثر کردار ادا کیا، غالباً اسی کا نتیجہ ہے کہ سعودی عرب بھی اور وہاں کے اکابر علماء میں بھی فقہی جمود نہیں، اساتذہ علماء محققین اور اصحاب فتویٰ وقضاء بالعموم فقہی توسع کے حامل ہیں اور ہر مسئلے میں بالخصوص جدید مسائل میں کسی ایک فقہ کی پابندی کرنے کے بجائے تمام فقہی آراء سے استفادہ کرنے اور قرآنی و حدیثی دلائل کو ترجیح دینے کا رجحان اور طرز عمل عام ہے، کاش! پورے عالم اسلام کے علماء اور اصحاب درس وافتاء میں یہی ذوق ورجحان عام ہوجائے، کیونکہ آج اسی وسعت فکر ونظر اور عدم جمود کی ضرورت ہے، اس کے بغیر جدید مسائل کا حل ممکن ہے نہ فرقہ واریت کا علاج ہی، آج جہاں نئے نئے مسائل حل طلب ہیں وہاں فرقہ وارانہ ذہنیت اور تشدد نے عالم اسلام کو نیم جان رکھا ہے اور ان دونوں کا حل اور علاج اسی طرزِ عمل میں ہے جو سعودی حکومت اور وہاں کے اکابر علماء وشیوخ نے اختیار کیا ہوا ہے اور جس کے فروغ اور ترقی میں شیخ ابن باز کے کردار وعمل اور مساعی حسنہ کا بڑا دخل ہے....شکر اللّٰہ سعیۃ وأجزل جزاء ہ (6)شیخ کی چھٹی خوبی، ان کا اعتدال وتوازن تھا جس کی ہر جگہ اور ہر معاملے میں شدید ضرورت ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے اگر چہ کبھی مداہنت کا راستہ اختیار نہیں کیا اور نہی عن المنکرکا فریضہ نہایت بے خوفی سے ادا کیا، حتیٰ کہ اگر بادشاہ کے روبروبھی کسی منکر کے خلاف بات کرنے کا مرحلہ آیاتو وہاں بھی اس کے خلاف آواز بلند کرنے میں کوئی کمزوری نہیں دکھائی، لیکن انہوں نے یہ سارے کام اعتدال وتوازن اور ایک خاص حکمت عملی کے تحت کیے، خیر خواہی کے انداز میں کیے اور تصادم اور حریفانہ کشمکش کے بغیر کیے، اس کا فائدہ یہ ہوا کہ حکومت آپ کے جذبات وافکار کا احترام کرنے پر مجبور ہے اور یوں دونوں کے باہمی تعاون سے، بعض مسائل میں اختلاف کے باوجود نہ صرف سعودی عرب کے اندر بلکہ پورے عالم اسلام بلکہ دنیا ئے کفر سمیت پوری دنیا میں اسلام کی دعوت وتبلیغ، اس کی نشر واشاعت اور رشد وہدایت کا اتنا عظیم