کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 135
ذروہ علیا(لند چوٹی) پر فائز تھے، اسی طرح عمل کے پیکر اور ورع وتقویٰ میں بھی بے مثال تھے، ان کی شخصیت اصلاح اور خیر کا جو ایک بڑا ذریعہ تھی، اس میں جہاں ان کی جلالت علمی کا دخل تھا وہاں اس میں ان کے کردار کی قوت بھی شامل تھی، علم وعمل کی یہ جامعیت ہی ہمارے اسلاف کا طرۂ امتیاز تھی اور حضرت الشیخ رحمہ اللہ بھی اس دور میں اس کا ایک بہترین نمونہ تھے۔ کثر اللّٰہ فینا أمثالہم (4)چوتھی خوبی، ان کے مزاج وطبعیت کی سادگی تھی، اللہ نے انہیں بہت اونچے مقام پر فائز کیا تھا، وہ کروڑوں دلوں پر حکمرانی کرنے والے بے تاج بادشاہ تھے، دنیاوی وسائل کی بھی کوئی کمی ان کے ہاں نہ تھی، لیکن اس کے باوجود لباس سے لے کر طور اطوار تک ہر چیز میں سادگی نمایاں تھی، آج کل کے اہل علم وفضل میں اس خوبی کا بھی فقدان ہے، حالانکہ اہل علم کا سرمایہ افتخار سادگی ہی ہونا چاہیے نہ کہ شاہانہ کروفر، اہل دنیا کی سی بودوباش اور اہل ثروت کے سے طور اطوار۔ (5)ایک بڑی خوبی شیخ کی یہ تھی کہ گوانہوں نے اپنی بابت کبھی کسی مسلک ومکتب فکر سے وابستگی کا اظہار نہیں کیا، حتیٰ کہ حنبلیت سے بھی نہیں، جو سعودی عرب کی اکثریت کا مسلک ہے اور اگر ان کے اندر ایمان وتقویٰ کی کمزوری ہوتی، تو حنبلیت سے وابستگی کا اظہار شاید ان کی منصبی مجبوری بھی ہوتی، لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں علمی رسوخ کے ساتھ چونکہ ایمان وتقویٰ کے زیور سے بھی آراستہ کیا تھا، اس لیے انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ حنبلیت کے برعکس کوئی دوسرا مؤقف اور نقطہ نظر اختیار کرنے سے کہیں وہ عتاب شاہی کا موردنہ بن جائیں، بلکہ انہوں نے جس مسلک اور مؤقف کو سچ سمجھا، اس کا بر ملا اظہار کیا، اس کے مطابق ہمیشہ فتویٰ دیا اور اسی رائے کو اختیار کیا جو قرآن وحدیث کے مطابق ہوتی، ان کے فتاویٰ اور مقالات میں سارا استدلال قرآن وحدیث سے ہی کیا گیا ہے، کہیں بھی صرف کسی ایک مسلک کے مطابق اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا، ان کے اس طرز عمل نے سعودی عرب میں اہل حدیث مسلک کو بڑا فروغ دیا اور فقہی جمود