کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 134
خلاف جو ممکن ہوتا کرگزرتے، اگر وہ اسے حکماً روکنے کی طاقت رکھتے تو وہ اپنی علمی حیثیت کو حاکم وقت کے طور پر استعمال کرتے اور اسے ختم کرنے کی تاکید کرتے، ان کی اس دینی غیرت نے سعودی عرب میں اب تک بہت سے منکرات کے فروغ کو روکا ہواتھا، دنیا وی وسائل کی فراوانی سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی راہ میں شیخ کا وجود ایک سنگ گراں، ایک بہت بڑی رکاوٹ اور سدمآرب تھا اور جس کی برکت سے سعودی معاشرہ بہت سی معاشرتی بے راہ رویوں سے محفوظ تھا، اگر وہ کسی منکر کو حکماً روک سکنے کی طاقت نہ رکھتے تو زبان وقلم سے ضرور اس کے خلاف جہاد کرتے لیکن منکر کے مقابلے میں خاموشی یا مداہنت ومصالحت کے وہ قطعاً روادارنہ تھے، آج اہل علم کی اکثریت میں اس دینی غیرت کا فقدان ہے جس کی وجہ سے عالم اسلام میں منکرات وفواحش کا ایک طوفان برپا ہے لیکن کوئی اس کے آگے بند باندھنے والا نہیں حتیٰ کہ علماء قوت اظہار سے بھی محروم ہیں شاید وہ دینی غیرت، جس نے ابو بکر صدیق سے یہ جملہ کہلوایا تھا، اینقص الدین وانا حی، کیا میرے جیتے جی دین میں کمی کردی جائے گی؟ ....اب وارثان منبر ومحراب اور حاملان علوم نبوت میں ناپیدہے، حالانکہ علمائے دین کا امتیاز ہی دینی غیرت وحمیت میں مضمر ہے، اگر وہ بھی اس امتیازی وصف سے محروم ہو جائیں تو ان میں اور عام آدمیوں میں کیا فرق باقی رہ جاتاہے؟ (3)تیسری امتیازی خوبی، شیخ کا زہد وورع اور تقویٰ تھا، آج کل کے علماء وداعیان میں اس کی بھی بڑی کمی ہے، وہ تقریریں تو بڑی لچھے دار کرتے ہیں، زبان وبیان کے جو ہر تو خوب دکھاتے ہیں اور منبر ومحراب اور اسٹیج پر تو عظیم الشان خطاب فرماتے ہیں، لیکن ان کا دامن عمل سے خالی ہوتا ہے، وہ صرف گفتار کے غازی ہوتے ہیں، کردار کے نہیں اور .... چوں بہ خلوت می روند کا ر دیگر می کنند کا مصداق !....یہی وجہ ہے کہ ان کی زبانیں قوت تاثیر سے محروم اور ان کے مواعظ وخطبات اصلاح وانقلاب کی صلاحیت سے عاری ہیں، شیخ مرحوم جس طرح علم وفضل کے