کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 133
(1)اللہ تعالیٰ نے انہیں فکر ونظر کی اصابت کے ساتھ علم وفضل، استنباط مسائل کی قوت اور ملکہ اجتہاد سے نوازا تھا، آپ علوم ومعارف کا ایک بحربے کراں تھے اور تفقہ اور علمی استحضار میں نہایت ممتاز، یہی وجہ ہے کہ ان کے فتاویٰ ومقالات ( جو گیارہ جلدوں تک پہنچ چکے ہیں ) اجتہاد وتفقہ کے بہترین نمونے ہیں، جن میں کسی ایک فقہ کی پابندی کے بجائے کتاب وسنت کی راہنمائی میں توسع سے زیادہ کام لیا گیا ہے، براہ راست قرآن وحدیث سے راہنمائی لی گئی ہے، بڑے بڑے اجتماعات اور مجالس میں شیخ سے ہر قسم کے مختلف سوالات کیے جاتے اور شیخ بروقت ایسے مدلل جواب سے نوازتے کہ آدمی ان کی قوت حافظہ، استحضار، ملکہ استنباط اور پرزور انداز استدلال سے حیران رہ جاتا، چند سال قبل راقم کو بھی جامعہ ام القریٰ (مکہ مکرمہ) میں ان کا ایک خطاب سننے اور اس کے بعد سوال وجواب کی نشست سے استفادہ کی سعادت حاصل ہوئی تھی، راقم نے حضرت الشیخ کی بابت جیسا کچھ سنا تھا اس سے کہیں بڑھ کر پایا، تفقہ واجتہاد کی یہ صلاحیتیں، جن سے شیخ مرحوم متصف تھے، بہت کم لوگوں کو ودیعت ہوتی ہیں، اس اعتبار سے وہ نہ صرف یہ کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم تھے بلکہ در حقیقت عالم اسلام کے مفتی اعظم تھے، پورے عالم اسلام میں ان کے فتویٰ اور تحقیقات کو نہایت اہمیت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا، اپنی اسی جلالت علمی کی وجہ سے وہ سعودی عرب کے علمی اداروں کی سر براہی پر فائز رہے، الجامعۃ الاسلامیۃ (مدینہ یونیورسٹی)کے وائس چانسلر رہے رابطہ عالم اسلامی (مکہ مکرمہ) کی مجلس اعلیٰ کے چیئر مین تھے، مکہ مکرمہ کی مساجد کی اعلیٰ عالمی مجلس کے ڈائریکٹر جزل اور اسلامی فقہی اکیڈمی جدہ کے بھی ڈائریکٹر جزل رہے، اسی طرح ادارہ بحوث علمیہ، افتاء ودعوت وارشاد (ریاض ) اور ہیئت کبار العلماء کے سر براہ تھے۔ (2)علم وفضل کی وسعت کے ساتھ مرحوم دینی غیرت وحمیت اور حق گوئی وبے باکی میں بھی ممتاز تھے، جب بھی اور جہاں بھی کوئی منکردیکھتے تو شیخ بے قرار ہوجاتے اور اس کے