کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 132
علم وفضل کے بے تاج بادشاہ کی رحلت
(از:....حافظ صلاح الدین یوسف، لاہور)
افسوس ہے کہ 26؍محرم الحرام 1420 ھ مطابق 13 مئی1999ء بروز جمعرات عالم اسلام کے عظیم علمی شخصیت اور سعودی عرب کے مفتی اعظم سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز ریاض میں انتقال فرماگئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!! دوسرے دن بروز جمعۃ المبارک خانہ کعبہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور جنۃ المعلیٰ کے مشہور اورتاریخی قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی، علاوہ ازیں سعودی عرب سمیت پورے عالم اسلام کے ہر شہر اور ہر قریے میں شیخ مرحوم کی غائبانہ نماز جنازہ ادا ہوئی اور ان کی مغفرت اور رفع درجات کے لیے دعا کی گئی، پاکستان میں بھی ہر جگہ بڑی بڑی مساجد اہل حدیث میں غائبانہ نماز جنازہ کا اہتمام کیا گیا، اس سلسلے میں لاہور میں جامعہ مسجد قدس اہل حدیث چوک دالگراں میں سب سے بڑا اجتماع ہوا، جس میں مولانا حافظ عبدالرحمان مدنی صاحب نے مرحوم کی نماز جنازہ پڑھائی اور ان کی دینی، ملی اور علمی خدمات پر روشنی ڈا لی۔
شیخ ابن باز، جو جوانی میں ہی (20 سال کی عمر میں ) ظاہری بصارت سے محروم ہوگئے تھے، لیکن اللہ نے ان کی علمی بصیرت اور تفقہ میں اتنا اونچا مقام عطا فرمایا تھا کہ صرف سعودی عرب میں ہی نہیں، بلکہ پورے عالم اسلام میں ان کی علمی عظمت اور فقاہت کا سکہ چلتا تھا، ان کا نام سنتے ہی ہر گردن جھک جاتی اور ہر سر، نگوں ہو جاتاتھا، رحمہ اللّٰہ رحمۃواسعۃ
اس کی وجہ وہ چند خصوصیات تھیں جن میں وہ اپنے اقران واماثل میں نہایت ممتاز تھے، اس اعتبار سے ان کی شخصیت واقعی آیۃ من آیات اللّٰہ کے مصداق اور ایک مثالی اور قابل تقلید نمونے کی حیثیت رکھتی ہے، جس کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے: