کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 130
سے بڑی دلیل ہے، شیخ کی اپنی زاہدانہ زندگی کو دیکھتے ہوئے بجاطور پر کہا جا سکتا ہے کہ وہ سلطان وقت کے ساتھ اخلاص ومؤدت کا تعلق رکھتے رہے، اس لیے نہیں کہ کوئی ذاتی غرض یا آسائش مطلوب تھی بلکہ انہوں نے اس تعلق کو دینی اقدار کی حمایت، عالم اسلام کے مسلمانوں کی نصرت، مساجد ومدارس کے قیام، محتاجین اور ضرورت مند لوگوں کی سفارش وغیرہ کے لیے استعمال کیا۔
وفات سے چند دن قبل جب شیخ طائف کے ملٹری ہسپتال میں زیر علاج تھے تو ایک ثقہ راوی کی روایت کے مطابق شیخ کی خواہش رہتی تھی کہ وہ ہسپتال کی مسجد میں جاکر نماز ادا کریں، احباب نے مشورہ دیا کہ اپنی جان کو کیوں مشقت میں ڈالتے ہیں، اپنے کمرے میں نماز پڑھ لیا کریں تو شیخ نے جواب دیا کہ یہاں نماز کے بعد میں جو نصیحت کے کچھ کلمات کہہ سکتا ہوں کہ دوسرا کوئی شخص اس کی ہمت نہ کر پائے گا، خیال رہے کہ ملٹری ہسپتال ہونے کی بنا پر اس ہسپتال میں فوجی اور سول دونوں شعبوں کے عمائدین اور سرکردہ حضرات ہی داخل ہوسکتے ہیں۔
شیخ پر اللہ کا یہ کرم تھا کہ نواسی سال عمر ہونے کے باوجود زندگی کے آخری دن تک دل ودماغ کا ساتھ رہا، اور اپنی روزانہ مصروفیات ایک حد تک نبھاتے رہے عوام وخواص کا جو گہرا تعلق ان کی ذات کے ساتھ تھا اس کا مظاہرہ شیخ کی وفات کے بعد قابل دید تھا، دیکھنے والوں نے بتایا کہ سعودی عرب کے اطراف واکناف سے لوگ کشاں کشاں مکہ مکرمہ پہنچنے کی فکر میں تھے کہ شیخ کی نماز جنازہ میں شرکت کر سکیں، ریاض سے آنے والی پروازیں تنگ دامنی کا شکار تھیں، لوگ اس کثیر تعداد میں موٹروں اور گاڑیوں سے آئے کہ مکہ مکرمہ تک پہنچنے والے تمام راستے رمضان میں عمرہ کی ادائیگی کے لیے آنے والے زائرین کا ساہجوم دیکھ رہے تھے، حرم مکی میں جنازہ کے وقت حج کا ساسماں تھا۔
’’ اللہ تعالیٰ جس بندے کو چاہتے ہیں زمین میں اس کے لیے قبولیت کے دروازے کھول دیتے ہیں۔‘‘
امید ہے شیخ کی ذات پر اس حدیث نبوی کا پورا اطلاق ہوگا، شیخ سے بارہا ملاقات رہتی، بارہا دور اور قریب سے دیکھا لیکن ان کی ایک خاص دید کا تذکرہ آخر میں کرتا چلوں۔