کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 129
حکام وقت کے سامنے شیخ کی جرات رندانہ کا کوئی واقعہ نہیں لکھا گیا، معاصر اہل علم اپنے اپنے علم کے مطابق ایسے کئی واقعات دامن تحریر میں لاچکے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس باب میں شیخ فرمان نبوی کے مطابق شاہ اور دیگر امراء کو تخلیہ میں نصیحت اور فہمائش کے قائل تھے، سعودی عرب میں اسلامی اقدار کی پاسداری، دنیا بھر کے اہل علم وفضلاء عصر کی تکریم، دینی اور علمی اداروں کا قیام، دعوت دین کے لیے دنیا کے کونے کونے میں دعاۃ اور مبلغین کا بھیجا جانا کیا شیخ کی راہنمائی اور بصیرت کے بغیر ممکن تھا، کیا وجہ ہے کہ سعودی عرب میں شرک وبدعت سے متعلق وہ منکرات نظر نہیں آتیں کہ جن سے عالم اسلام کا چپہ چپہ داغ دار ہے، درست ہے کہ یہ سب شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تحریک تجدید واصلاح کے نتیجہ میں ظہور پذیر ہوا لیکن موجودہ حالات کے تناطر میں جس طرح سعودی عرب کے دروازے عالم اسلام سے آئے ہوئے مختلف عقائد اور افکار کے حامل مسلمانوں کے لیے کھلے رہے ہیں، ان اصلاحات کا باقی رہنا اور ان میں سر موتغیر نہ آنا کسی ایسی باعزم وباہمت شخصیت کے سحر کا اعجاز ہی ہو سکتا تھا جو نہ صرف مذہبی بدعات بلکہ ثقافت اور آزاد روی (لبرلزم) کے نام پر طرح طرح کی منکرات کے قیام کی راہ میں سداسکندری بن کر کھڑی رہی، عالم اسلام کا کون ساملک ہے (منکرات کے ازالہ کی بھر پور کوشش کے سلسلہ میں اب سعودی عرب کے بعد افغانستان کا نام لیا جا سکتا ہے، اللہ کرے تصحیح عقائد کی طرف بھی ہمارے افغانی بھا ئی متوجہ ہوں ) جہاں سینما، تھیٹر، قحبہ خانوں، مے خانوں اور جوئے کے اڈوں کو سر کاری سر پرستی حاصل نہ ہو، جبکہ سر زمین سعودی عرب ان منکرات کے وجود سے پاک ہے، اگر کچھ بیمار ذہن چوری چھپے ان رزائل میں ملوث ہیں تو وہ اپنے اعمال کے بدنتائج کو بھگتنے کا خطرہ لے کر ہی ایسا کر پاتے ہیں۔ یہاں شاہان سعودیہ کی عالی ظرفی اور علماء کے ساتھ ان کے حسن تعلق کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی کہ چاہے شاہ عبدالعزیز ہو ں یا ان کے اخلاف، ہر سلطان نے علماء کے ساتھ اپنے تعلق کو مضبوط رکھا، شیخ ابن باز اور ان کے جلو میں دیگر مقتدر علماء کے ساتھ ہفتہ وار نشست کا کاروبار سلطنت کا جزء بن جانا اور اس طرح علماء کی پذیرائی اور وقار میں کمی نہ آنے دینا اس کی سب