کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 128
مخالف اگر اہل بدعت میں سے ہو یا بدعقیدہ ہو تو شیخ زیادہ سے زیادہ یہ الفاظ کہیں گے:
((عاملہ اللّٰہ بمایستحق۔))
’’ اللہ اس کے ساتھ وہ سلوک کرے کہ جس کا وہ مستحق ہے۔‘‘
شیخ میں حس مزاح وافر تھی، ہم سن احباب اور خاص طور پر وہ غیر عرب حضرات جن میں تعد ازدواج کا چلن نہیں ہے، ملاقات کے لیے آتے تو شیخ مزاحاً ان سے کہتے دوسری شادی کی کہ نہیں کی، یا تمہاری کتنی بیویاں ہیں ؟ دوسری کیوں نہیں کرتے۔
بعض اہل علم کو رات کے کھانے پر بھی روک لیتے، اگر کوئی عذر کرتا تو کہتے، معلوم ہوتا ہے اپنی بیوی سے ڈرتے ہو، اسی لیے کھانے کی دعوت قبول نہیں کر رہے، آپ کی مجلس میں اگر کوئی بچہ لا یا جاتا تو اس کے سرپر ہاتھ پھیر تے، نام اور والد کا نام پوچھتے، پھر ارکان اسلام کے بارے میں سوال کرتے اور پھر پوچھتے کہ بتاؤ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کیوں پیدا کیا؟ اگر یہ جواب بھی صحیح مل جاتا تو پوچھتے، بتاؤ قرآن سے اس کی دلیل کیا ہے؟ گویا شیخ کی خواہش تھی کہ ہر بچہ مبادیات دین کا پورا ادراک کرنے والا ہو، شیخ ساری عمر دعوت دین کی تلقین کرتے رہے، یعنی نصیحت کا حق خوب ادا کیا۔
ڈاکٹر صالح المنجد لکھتے ہیں کہ: جب مصر کی ایک عدالت نے حاکم وقت کے اشارہ پر سید قطب رحمہ اللہ کو سزائے موت سنائی، شیخ بہت کبیدہ خاطر ہوئے، کاتب خاص کو بلا کر مصری صدر کے نام ٹیلی گرام لکھوایا اور آخر میں خاص طور پر یہ آیت لکھوائی:
﴿وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیْہَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾ [النساء:93]
اس واقعہ سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ جہاں شیخ کسی مکتب فکر سے اختلاف رکھتے نظر آتے ہیں اور صاحب فکر کو اس کی غلطیوں پر متنبہ کرتے رہتے ہیں وہ ایسے شخص کی حالت مظلومیت میں اس کی داد رسی کے بھی خواہش مند ہیں، اختلاف فکر کے باوجود ان کی زبان نے کسی صاحب علم کی تنقیص روانہ رکھی، کہا جاسکتا ہے کہ اس تحریر میں شاہی خاندان اور