کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 127
جائز کاموں میں سفارش نہ کروں ؟ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (( اشفعوا توجروا))شفاعت کرو اجر پاؤگے، میری سفارش سے اگر کسی کا کام ہوجاتا ہے تو ہم خرما وہم ثواب، اور اگر نہیں بھی ہوتا تو میرا اجر تو ضائع نہ جائے گا، لاریب کہ یہ سلسلہ شفاعت آپ کے آخری ایام تک جاری رہا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ شیخ کی سفارش سے کتنوں کے گھر بسے، کتنے طلبہ و مساکین کی زندگیاں سنوریں، کتنے قید وبند سے آزاد ہوئے، کتنوں کو ملازمتیں ملیں، اور پھر جہاں تک دنیا بھر میں مسجدوں، مدارس، یتیم خانوں اور دیگر خیراتی اداروں کے قیام کا تعلق ہے تو شیخ کی شفاعت حسنہ کہا ں کہاں نہ اثر انداز ہوئی ہوگی۔ شیخ کی مجالس سے آشنا حضرات جانتے ہیں کہ شیخ کی زبان پر اکثر سبحان اللہ کا ورد رہتا تھا، اگر بات چیت میں کوئی شخص تلخ نوائی پر اتر آتا تو شیخ کہتے سبح سبح(سبحان اللہ کہو) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کثرت سے درود بھیجتے اور اسی طرح لاحول ولا قوۃ الا باللّٰہ کا ورد بھی زبان پر جاری رکھتے۔ شیخ کے احباب خاص سے پوچھا گیا کہ آیا شیخ کبھی غصے میں آئے ہیں اور اگر آئے ہیں تو کس حد تک، ایک صاحب نے بتا یا کہ ایک مجلس میں ایک بدوی نے اپنا ایک ذاتی مسئلہ پوچھا کہ وہ اپنی بیوی کو تین مختلف اوقات میں طلاق دے چکا ہے اور اب دوبارہ اپنا گھر بسانا چاہتا ہے، شیخ نے کہا کہ طلاق مغلظ واقع ہو چکی ہے اس لیے اب رجوع کی کوئی گنجائش نہیں، بدوی نے دوبارہ تکرار کی کہ اس مسئلہ کا کوئی حل نکالا جائے، شیخ کا وہی جواب تھا، بالآخر بدوی نے کہا، شیخ صرف میری خاطر!! اس بات پر شیخ جلال میں آگے اور کہا: لاؤمیرا عصا، یہ کوئی کھیل ہے!! شیخ کے غصے کی یہ انتہائی حد تھی، عصاکا استعمال مقصود نہ تھا شیخ کی تحریر اپنے مخالفین اور معاندین کے حق میں سب وشتم سے بالکل خالی ہے، کسی پر رد بھی مقصود ہو اور مخالف اہل سنت میں سے ہو تو شیخ عموماً یہ الفاظ کہیں گے: (( اخونا فلان اوقال الشیخ عفا اللّٰہ عنہ۔)) ’’ہمارے فلاں بھائی نے ایسا کہا یا شیخ فلاں، اللہ انہیں معاف کرے، یہ کہتے ہیں۔‘‘