کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 126
خواہاں ہوئے، شیخ کا اس عاجزدرماندہ کی درخواست کو قبول کرنا، ٹانگ کی تکلیف کے باوجود وقت مقررہ پر تشریف لانا اور ضیوف الرحمن کی یوں پذیرائی کرنا میرے لیے باعث صد افتخار اور بے پایاں مسرت کا حامل ہے، منتظمین بہت خوش ہوئے اور حاجیوں نے فخریہ طور پر کہا کہ سعودی عرب کے مفتی اعظم نے ہمارے قافلے کو بڑے اعزاز سے نوازاہے۔
شیخ مرجع عوام وخواص تھے، دنیا کے کونے کونے سے لوگ دینی مسائل میں آپ کی طرف رجوع کرتے تھے، ذاتی وعائلی مسائل میں بعض لوگوں کو صرف آپ کے جواب سے تشفی ہوتی تھی، ایک میاں بیوی کا جھگڑا ہورہا ہے، طلاق تک نوبت پہنچ گئی ہے، طلاق ہو گئی کہ نہیں، بیوی کا اصرار ہے کہ شیخ ابن باز کو فون کر کے مسئلہ دریافت کرو، چنانچہ یہ جوڑا شیخ کی طرف رجوع کرتا ہے۔
سعودی عرب کے حکمران خاندان کی بے شمار خواتین جو ’’ امیرات ‘‘ (جمع امیرۃ، شہزادی) کی حیثیت سے جانی پہچانی جاتی ہیں اکثر شیخ کو فون کر کے اپنے مسائل بتاتی ہیں اور شیخ سے راہنمائی چاہتی ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شیخ حکمران خاندان کے ایک ایک فرد کو جانتے ہیں، چنانچہ وہ ہر مسئلہ سے قبل اس کے شوہر اور بچوں کے حالات دریافت کرتے ہیں اور ان کی خیریت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں، شیخ نے اپنے ذاتی تعلقات کو اپنے کسی فائدہ کے لیے استعمال نہیں کیا بلکہ حاجت مند حضرات کی سفارش اور ان کی بگڑی سنوارنے کے لیے استعمال کیا۔
کہا جاتا ہے کہ تحصیل علم کے بعد ستائیس سال کی عمر میں جب آپ کا الخرج کے قاضی کی حیثیت سے تقرر ہوا تو اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ آپ سلطان اور امراء کو لوگوں کی ضروریات کے بارے میں سفارشی خطوط لکھتے رہتے تھے، یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا گیا تو آپ کی توجہ اس بات کی طرف دلائی گئی کہ آپ کا فرض صرف لوگوں میں فیصلہ کرنے کی حد تک ہے، سفارشی خطوط لکھنا آپ کے فرائض میں داخل نہیں، شیخ نے جواباً کہا کہ میں صرف لوگوں کے اونٹ، بیل اور گایوں بکریوں کی بابت فیصلے کرتارہوں اور لوگوں کے