کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 125
شیخ کی طرف سے برابر موصول ہوتا ہے۔
دوسال قبل حج کے موقع پر شیخ کے دیوان عام میں ایک روز میں موجود تھا، میری موجودگی کے دوران چچنیا کے موجودہ صدر شیخ کی ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور شیخ نے اپنی عادت کے مطابق صدر کی خوب آؤبھگت کی، کافی دیر تک بات چیت میں مشغول رہے، کھانے پر اپنے ساتھ بٹھایا اور رخصت ہوتے وقت صندوق خاص کے مہتمم کی خصوصی آمد سے مجھے اندازہ ہوگیا کہ شیخ نے صدر کو خالی ہاتھ نہ جانے دیا ہوگا۔
شیخ کے متواضعانہ کردار کا ایک نقش اخیر کہ جس کا میں شاہد ہوں، مذکورہ زیارت کے دوران میں نے شیخ کو دعوت دی کہ وہ حاجیوں کے اس کاروان میں کہ جس کے ساتھ میں لندن سے آیا تھا، تشریف لائیں اور خطاب کریں یہ کاروان (لبیک) کے نام سے موسوم تھا، اور اس کے منتظمین کی خواہش تھی کہ شیخ اسی کاروان کو اپنے قدوم میمنت سے نوازیں، شیخ نے کہا کہ حج کے ایام گزرتے ہی فلاں دن مغرب کے بعد، میں مقررہ وقت پر مکہ مکرمہ ششہ میں شیخ کی مسجد میں پہنچ گیا، شیخ کی مصروفیات اور خاص طور پر ایام حج میں شیخ کے ارد گرد لوگوں کے ازدحام اور سائلین کے ہجوم کے باعث طبعیت بڑی متفکر تھی کہ آیا شیخ وقت نکال سکیں گے یا نہیں، اسی ہجوم میں شیخ تک پہنچ جانا بھی کارے دارد کہ انہیں سرکاری گارڈ بھی مہیا ہے اور وہ شیح کو ہجوم میں سے باحفاظت کارتک لے جانے پر مامور ہیں، نماز ختم ہوتے ہی شیخ اپنے محافظوں کے جلو میں قبلہ کی جانب ایک خصوصی دروازے سے باہر نکل جاتے ہیں، میں بمشکل صدر دروازے سے ہوتا ہوا شیخ کی کار تک پہنچتاہوں، محافظین کار کے قریب کسی کو پھٹکنے نہیں دیتے، بہر حال میں ایک محافظ کو شیخ کے ساتھ اپنا وعدہ یاد دلا کر قریب پہنچتاہوں اور شیخ کو ان کا وعدہ یاد دلاتا ہوں، شیخ نے ایک محافظ کو اشارہ کیا کہ وہ اپنی جیپ میں مجھے بٹھائے اور وہ ہمارے پیچھے پیچھے آتے ہیں، جنوبی عزیزیہ کی ایک نوتعمیر شدہ عمارت میں حاجیوں کا قافلہ شیخ کا منتظر تھا، نچلی منزل کے ایک ہال میں یہ تقریب سعید منعقد ہوئی، شیخ نے خطاب فرمایا، جس کا میں انگریزی میں ترجمہ کرتا رہا، شیخ سوال وجواب کی نشست کے بعد واپسی کے