کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 124
شیخ اس دور کے حاتم طائی تھے، آپ ان سے ملاقات کریں، ان کی پہلی بات ہوگی (الغداء الیوم عندنا) آج کھانا ہمارے ہاں کھاؤگے۔
آپ کھانے کے لیے شیخ کے گھر پہنچتے ہیں تو ایک جم غفیر نظر آئے گا، معلوم ہوگا کہ یہ سب حضرات جن میں مقتدر شخصیات بھی شامل ہیں اور طالب علم بھی سب کے سب کھانے پر مدعو ہیں، شیخ کے ایک عارف حال دوست شیخ عبداللہ بن منیع لکھتے ہیں کہ شیخ کا روزانہ خرچ دوہزار ریال کے لگ بھگ ہے، شیخ کی تنخواہ کا بڑا حصہ محتاجین کی مدد اور ضیافت خواص و عوام پر خرچ ہو جاتا ہے، بلکہ ہر سال شیخ اچھے خاصے مقروض ہو جاتے ہیں، لیکن حکومت کی دریادلی کے باعث قرض کی ادائیگی کا اہتمام ہو جاتا ہے، روزانہ کھانے وغیرہ سے فارغ ہوتے ہوتے عصر کی نماز کا وقت ہو جاتا ہے، عصر سے مغرب تک شیخ آرام کے لیے اندرون خانہ چلے جاتے ہیں، مغرب کے بعد کسی نہ کسی مسجد میں درس کا اہتمام رہتا ہے، ریاض کے قیام کے دوران میں نے دیکھا کہ ایک ہی درس میں تین چار کتب حدیث کا درس جاری ہے، طالب علم درس کی قراء ت کرتا ہے اور شیخ تشریح کرتے چلے جاتے ہیں، ایک کے بعد پھر دوسری کتاب، یہاں تک کہ عشاء کی اذان ہوجاتی ہے۔
احباب نے بتا یا کہ رات کے کھانے کے بعد بعض اوقات آدھی رات تک شیخ اپنے کاتبوں کے ساتھ کتابوں کی ورق گردانی، بحوث کی تیاری یا تصنیفی کاموں میں مصروف رہتے ہیں، اور ان تمام مصروفیات کے باوجود شیخ تہجد کے نوافل کا التزام کرتے رہے، شیخ کا دسترخوان کرم ہر خاص وعام کے لیے بچھاہوا ہے، کتنے طلبہ اور حاجت مند حضرات شیخ کے صندوق خاص کے مرہون منت ہیں، سعودیہ کے مخیر حضرات شیخ پر اندھا دھند اعتماد رکھتے تھے اس لیے زکوٰۃ وصدقات کی رقوم آپ کے پاس جمع کرادیا کرتے، یہی شیخ کا صندوق خاص کہلاتا تھا اور یقینا اپنے پاس سے بھی اس صندوق کو مسلسل آباد کیے رکھتے تھے، شیخ کے اہل خانہ رقمطراز ہیں کہ شیخ کی وفات پر بوسنیا سے ایک عورت نے تعزیت کا پیغام بھجوایا، ہم نے پوچھا کہ تم شیخ کو کیسے جانتی ہو تو اس نے کہا کہ میں شیخ کو کیسے نہ جانوں گی، جب میرا روزینہ