کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 123
بار بار موقع ملتا رہا۔
شیخ ایک لگے بندھے روٹین کے مطابق اپنا سارا دن گزارتے جس میں چاہے ریاض کا قیام ہو یا مکہ، مدینہ اور طائف کا، سر موفرق نہ آتا۔ فجر کی نماز کے بعد درس، پھر اشراق تک ذکر واذکار، دارالافتاء کے آفس میں پابندی کے ساتھ آنا اور پھر دوبجے تک اسی حالت میں اپنے دونوں طرف کا تبوں کو مختلف در خواستوں اور خطوط پر ہدایات لکھوانا کہ فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی ہے اور شیخ بھی سائل کو جواب دینے سے محروم نہیں کرنا چاہتے، سائل ہو یا سائلہ وہ شیخ کی جان نہیں چھوڑنا چاہتے اور شیخ کمال تحمل سے جواب دیے چلے جاتے، اکثر ایسا ہوا کہ میں اپنی کسی درخواست کو پیش کرنے کا انتظار کررہاہوں اور شیخ کا فون بلائے ناگہانی کی طرح وقت کواڑائے چلا جارہا ہے، لیکن یہ شیخ کی عالی ظرفی ہے کہ وہ کسی سائل کے سوال کا جواب دینے سے گریز نہیں کرتے، اسی دوران ملاقاتیوں کا تانتا بندھا ہوا ہے، شیخ کا دفتر دیوان عام کی حیثیت رکھتا تھا جس میں ملاقاتیوں کی ایک کثیر تعداد سما سکتی تھی، مکہ مکرمہ میں شیخ کے گھر کا دیوان ریاض طائف کے مقابلہ میں زیادہ وسیع تھا۔
شیخ کے سیکرٹری خاص ڈاکٹر سعد الشویعر لکھتے ہیں کہ اس دیوان میں بعض دفعہ باہر کے وفود آتے ہیں اور معمول کے مطابق ایک سرے سے دوسرے سرے تک لوگوں سے سلام ومصافحہ کرنے کے بعد اپنی اپنی نشست پر بیٹھ جاتے ہیں، وفد کے سرکردہ حضرات مجھ سے پوچھتے ہیں کہ شیخ کب آئیں گے تا کہ ہم ان سے شرف ملاقات حاصل کر کے اپنا مدعا عرض کر سکیں، تو میں ان سے کہتا ہوں کہ یہی تو وہ شیخ ہیں جو فون کے بالمقابل تشریف رکھتے ہیں کہ جن سے آپ ابھی سلام وکلام کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر سعد کہتے ہیں کہ کئی مقتدر شخصیات شیخ کے اس مقام اور تواضع کو دیکھ کر آبدیدہ ہو گئیں، وہ کہنے لگے کہ ہم اپنے علماء میں تکبر یا جذبہ فخر دیکھتے ہیں اور بغیر وقت ملاقات طے کیے ملاقات کو ناممکن جانتے ہیں لیکن شیخ کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔ شیخ ہر شخص سے عندالملاقات اس کا حال پوچھیں گے اور اگر زائر باہر سے آرہا ہے تو اسے پاس بٹھا ئیں گے اور اس کے بارے میں مزید جاننا چاہیں گے۔