کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 122
فارغین ساری دنیا میں کتاب وسنت کی دعوت عام کیے ہوئے ہیں اور جب شیح ریاض کے دارالافتاء منتقل ہوگئے تو فتویٰ نویسی کے علاوہ اس ادارہ کے ماتحت تمام دعاۃ کی سر پرستی بھی آپ کو حاصل ہو گئی، اور اس طرح کتاب وسنت کی بنیادوں پر دعوت وتبلیغ کا کام وسعت پذیر ہوتا گیا۔ 66ء میں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سے فراغت کے بعد سعودی عرب کے مذکورہ ادارہ نے تبلیغ وتدریس کی غرض سے بیرون ملک کا م کا آغاز کیا اور اس مقصد کے لیے سب سے پہلے افریقہ کے چند ملکوں کا انتخاب کیا گیا، میں ان پانچ اوائل مبعوثین میں شامل تھا جنہیں کینیا یوگنڈا اور روڈیشیا موجودہ زمبابوے) بھیجا گیا، 67ء سے 76ء تک میرا قیام نوسال نیروبی(کینیا) میں رہا۔ 76ء کے اوائل میں کچھ ایسی صورتحال پیدا ہو گئی کہ میرا دل وہاں کے قیام سے اچاٹ ہوگیا، ان حالات کے پیدا کرنے میں اہل بدعت کی مخالفت بلکہ مخاصمت کا زیادہ دخل تھا، چنانچہ میں نے ریاض میں شیخ سے ملاقات کی اور کینیا سے نقل مکانی کا مطالبہ کیا، شیخ نے قطعاً کسی ہچکچاہٹ کا اظہار نہ کیا بلکہ مجھے اختیار دیا کہ میں پاکستان، برطانیہ یا امریکہ کا انتخاب کرلوں، میں نے برطانیہ کا انتخاب کیا اور وہ بھی اپنی اس خواہش کی بناپر کہ میں برطانیہ میں قیام کے دوران برطانیہ کی کسی یونیورسٹی میں جزو قتی طالب علم کی حیثیت سے ریسرچ ورک کر سکوں گا۔ میں اپنے لیے باعث افتخار سمجھتا ہوں کہ دارالافتاء کی جانب سے افریقہ بھیجے جانے والوں میں سے میں سر فہرست احباب میں شامل تھا اور یورپ میں بھی میں پہلا فرد تھا جسے دارالافتاء کی جانب سے بھیجا گیا۔ انہی دنوں حج کے دوران حاجیوں کی تعلیم و تربیت وراہنمائی کے لیے ایک ادارے کا قیام عمل میں لایا گیا جو ’’التوعیۃ الاسلامیہ فی الحج‘‘ کے نام سے موسوم ہوا، اس ادارے کی دعوت پر کئی سال تک میں دوران حج سر زمین حجاز جاتا رہا اس کے علاوہ مدینہ منورہ میں والدین کے قیام کی بنا پر ہر سال مدینہ جانے کا بھی موقع ملتا اور اس طرح شیخ سے ملاقات کی سبیل پیدا ہو جاتی اور ان کے شمائل حسنہ کو قریب سے دیکھنے کا