کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 121
شیخ ہمہ جہت صفات کے حامل تھے، مفسر، محدث، فقیہ، خطیب، منتظم، لیکن دعوت وارشاد کا پہلو آپ کی زندگی پر غالب تھا، آپ اپنی تقریر میں سب سے پہلے اللہ کا تقویٰ اختیار کر نے کا ذکر کرتے، اور اس کے بعد عبادت کو خالصتاً للہ کے لیے صرف کرنے پر زور دیتے، شرک کی مذمت میں آیات واحادیث ذکر کرتے اور اخلاق حمیدہ سے متصف ہونے پر ابھارتے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک داعی کے لیے چار صفات کا ہونا انتہائی ضروری ہے، دین میں گہری بصیرت، اخلاص، علم اور اخلاق حمیدہ، یہ چاروں صفات بدرجہ اتم شیخ میں پائی جاتی تھیں۔ شیخ نے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ کو یوم تاسیس سے سنبھالا، آپ کی ادارت کے ایام میں جامعہ کو ہر فن میں ماہر اساتذہ نصیب ہوئے۔ شیخ محمد الامین الشنقیطیؒ تفسیر اور اصول فقہ میں بہت اونچا مقام رکھتے تھے، بلاد شنقیط (موریطانیہ)میں شیخ سے بڑھ کر اب تک کوئی عالم نہیں ہوا ہے۔ شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے تین سال تک حدیث کا درس دیا، عصر حاضر میں علم حدیث اور رجال حدیث میں ان کا ثانی نظر نہیں آتا۔ حافظ محمد گوندلویؒ نے بھی جامعہ میں ایک سال گزارا، مسجد نبوی میں ان کے حلقہ درس میں جامعہ کے کئی اساتذہ بھی شریک ہوا کرتے تھے۔ والد مکرم مولانا عبدالغفار حسن کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزازبخشا کہ انہوں نے سولہ سال تک جامعہ میں حدیث، اصول حدیث اور اسناد کی تدریس کی، کئی اساتذہ نے ان سے حدیث کی سند لینا باعث افتخار سمجھا۔ ایسے ہی شیح عبد المحسن حمد العباد مادہ توحید میں، شیح عبدالقادر شیبۃ الحمد مادہ حدیث میں، شیخ محمد المجذوب ادب میں، شیح عبدالرؤف لبدی مادہ لغت ونحو میں، شیخ محمد مختار شنقیطی فقہ اور اصول فقہ میں، شیخ محمد عمر فلاتہ حدیث وتوحید میں شیخ عطیہ محمدسالم لغت اور بلاغت میں نمایاں رہے، اب علم وفن کی یہ کہکشاں کہاں نظر آئے گی۔ شیح کے اخلاص کا ثمرہ ہے کہ جامعہ کے