کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 118
شیخ ابن باز انیس سال کی عمر میں اپنی بینائی کھوبیٹھے لیکن اللہ تعالی نے انہیں ایسی بصیرت سے نوازا کہ جس پر ہزاروں بصارتیں قربان ہوں، ان کی زندگی کے وہ گوشے کہ جن کا میں شاہد رہا یا ان کے دوست احباب کے توسط سے علم میں آئے، اس مضمون میں پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، شیح نے دیار نجد کا وہ زمانہ پایا جس میں شیخ محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کی تحریک توحید کے اثرات پوری طرح جڑپکڑ چکے تھے اور سر زمین عرب سے تمام بدعات کا قلع قمع ہو چکا تھا، شیخ نے خالص توحید کے بیج کو اپنے سینہ میں سمو لیا اور ساری عمر اس کی وکالت کرتے رہے، گوانہوں نے فقہ حنبلی میں تفقہ حاصل کیا تھا، لیکن اس بات کو انہوں نے قولاً اور فعلاً واضح کرکے دکھا یا کہ وہ مسائل کی تحقیق میں کتاب وسنت اور تعامل صحابہ کو معیار اور حجت مانتے ہیں، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے طلاق ثلاثہ (یعنی ایک ہی مجلس میں مرد کا تین دفعہ طلاق کہنا) کے مسئلہ پر معاصر علماء کی رائے سے اختلاف کیا اور اس رائے کا بر ملا اظہار کیا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں معروف تھا اور جس کی تائید میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور امام ابن قیم رحمہ اللہ نے دلائل کا انبار لگا دیے ہیں، [1]
[1] ( ڈاکٹر صہیب حسن مدنی حفظہ اللہ اپنے والد ہی کی طرح بھرپور صلاحیتوں کے مالک ہیں۔پاکستان کے معروف شہر لاہور میں ادارہ دعوۃ الحق کے مدیر جناب محمود احمد غضنفر آپ کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’شگفتہ چہرہ، روشن آنکھیں، کشادہ پیشانی، خوش اخلاق وخوش گفتار، نرم خو ونرم دل، حسنِ علم وعمل اور حسنِ اخلاق کے پیکر، تفسیر، حدیث اور عربی ادب کے ماہر، علمی، ادبی اور فقہی مجالس کی رونق، مسند تدریس اور محراب ومنبر کی زینت، علمی خاندان کے چشم وچراغ....مولانا عبد الغفار حسن کے فرزند ارجمند مولانا ڈاکٹر صہیب حسن فاضل مدینہ یونیورسٹی، پی ایچ ڈی لندن، امیر مرکزی جمعیت اہلحدیث برطانیہ، صدر قرآن کمیٹی لندن، مندوب وزارت مذہبی امور سعودی عرب۔‘‘ جناب محمود احمد غضنفر کے بعد میرے لیے جناب ڈاکٹر صہیب حسن مدنی کے بارے میں لکھنے کو کچھ باقی نہیں رہ گیا ہے۔ میں نے جب آپ سے برطانیہ فون کر کے آپ کے مضمون کو اپنی کتاب میں شامل کرنے کے حوالے سے بات کی تو آپ نے بخوشی مجھے اجازت دی اور ہمت افزا کلمات کہے۔ اس کے بعد کئی دفعہ آپ سے برطانیہ فون پر بات ہوئی۔ مگر آپ کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم نہ ہو سکیں۔ البتہ آپ کی اہلیہ صاحبہ جن کا نام شکیلہ قریشی ہے اور جو دہلی کے ایک علمی خانوادے کی چشم وچراغ ہیں، نے مجھے آپ کے بارے میں کافی معلومات فراہم کی۔ ڈاکٹر صاحب کے بارے میں جو معلومات میں نے لکھی ہیں اس کی راوی ان کی اہلیہ محترمہ ہی ہیں۔ ان کی اہلیہ ((