کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 117
شیخ عبدالعزیزبن باز رحمہ اللہ ، ایک مرد مجاہد (از:....ڈاکٹر صہیب حسن[1]؍امیرجمعیت اہل حدیث، لندن) دنیا میں رجال (مردوں ) کی کمی نہیں ہے، لیکن قرآن نے رجال کے لفظ سے خاص صفات کے حامل افراد لیے ہیں، فرمایا ’’مومنوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں کہ انہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اسے سچا کر دکھایا، ان میں سے کوئی تو اپنی عمر پوری کر چکا اور کوئی انتظار میں ہے اور انہوں نے اپنے عہد میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘ (الاحزاب:23) اسی طرح بیوت اللہ کے آباد کرنے والوں کے تذکرہ میں ارشاد فرمایا: ’’ان میں صبح وشام وہ اللہ کی تسبیح کرتے ہیں جنہیں اللہ کے ذکر، اقامت صلاۃ اور ادائے زکوٰۃ سے نہ تجارت غافل کرتی ہے اور نہ خرید وفروخت، وہ اس دن سے ڈر تے رہتے ہیں، جس میں دل اور آنکھیں الٹ جائیں گی۔‘‘ (النور:36۔37) یقینا ہمارے استاذ ومربی سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز انہی امتیاز کے حامل رجال میں سے تھے کہ جن کے وجود سے اسلاف کی یاد تازہ ہوتی تھی اور جن کی ہمہ گیر اور بھر پور زندگی بہتوں کے لیے مشعل راہ بنی رہے گی۔
[1] ڈاکٹر صہیب حسن مدني حفظہ اللہ کا تعارف: یہ مضمون جناب ڈاکٹر صہیب حسن مدنی حفظہ اللہ کا ہے۔ آپ اہل علم کے نزدیک کوئی محتاج تعارف نہیں۔ آپ کی ولادت انڈیا کے صوبہ مشرقی پنجاب کے مالیر کوٹلہ میں سن 1942ء میں ہوئی۔ آپ کا خاندان علم وعمل میں اپنی مثال آپ تھا۔ 1947ء میں جب بھارت آزاد ہو گیا تو اس کے فوراً ہی بعد پاکستان کی علیحدگی کا ماحول پیدا ہو گیا اور 14 اگست 1948ء میں پاکستان انڈیا سے بالکل الگ تھلگ ہو گیا۔ اسی سال ڈاکٹر صہیب حسن مدنی حفظہ اللہ کے والد محترم جناب مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ ہندستان سے ہجرت کر کے پاکستان چلے آئے اور لاہور کو اپنا مسکن بنایا۔اس وقت ڈاکٹر صہیب حسن مدنی رحمہ اللہ کی عمر کوئی چھ سال کی تھی۔ آپ نے ابتدائی تعلیم لاہور ہی میں حاصل کی۔ جامعہ اسلامیہ مدینہ میں جب آپ کے والد مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ کا انتخاب بحیثیت استاذ حدیث ہوا تو اپنے والد رحمہ اللہ کے ساتھ ہی مدینہ منورہ منتقل ہو گئے اور اعلیٰ تعلیم آپ نے مدینہ یونیورسٹی ہی سے حاصل کی۔ مدینہ پہنچنے سے قبل آپ کے والد محترم جناب مولانا عبد الغفار حسن رحمہ اللہ پاکستان کی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن تھے۔ ((