کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 116
روشنی اورخوشبو سے کائنات کو فیض یاب کرتے ہوئے ایک قائد انہ رول انجام دیں۔ مسلمان ماحول کے اندھیرے کو دور کرنے یا کم از کم اسے کم کرنے کی فکر نہ کرے تو اس کا وجود اللہ کی زمین پر بوجھ ہے۔ شیخ کے اوصاف واخلاق، کمالات وخدمات اور ساری تگ ودو اسی ذمہ داری کے انجام دینے کے لیے وقف رہی اورآپ کے اخلاص وللہیت اورطریقۂ کار کی بدولت دنیا گواہ ہے کہ آپ کو اس راہ میں اپنے تمام معاصرین میں سب سے زیادہ کا میابی حاصل ہوئی۔ اخبارات و رسائل نے اعدادو شمار جمع کرکے لکھا ہے کہ جن خوش نصیبوں کو اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں اسلام قبول کرنے کی سعادت بخشی ان کا اوسط روزانہ پانچ کا ہے۔ وفات سے صرف دوگھنٹے پہلے بھی طائف میں اپنے مسیحی معالج کو اسلام کی حقانیت سمجھا نے میں مصروف رہے۔ دعوت وتبلیغ کے میدا ن میں کام کرنے والے عام طورپر ایسے مصروف اورسر شار ہو جاتے ہیں کہ بہت حد تک گھر کی خبروں سے یکسربے خبر ہو جاتے ہیں مگر اس کلیہ سے بھی آپ کو شیخ کی ذات مستثنیٰ نظر آئے گی۔ ہماری طالب علمی کے دور میں یہ واقعہ تواتر کے ساتھ شہرت رکھتا تھا کہ ایک دن شیخ کو پتہ چلا کہ ان کے ایک لڑکے نے نماز نہیں پڑھی ہے۔ شیخ غصے سے بے قابو ہو گئے، لڑ کے کو پکڑ ا، گراکر سینے پرسوار ہو گئے اورگھروالوں سے کہنے لگے: (( ھاتو االسکین أذبحہ۔)) ’’چھری دو، میں اسے ذبح کردیتا ہوں۔‘‘ امت مسلمہ کو صدیوں بعد ایک عالم باعمل، نمونۂ سلف پیکر صدق وصفا، اخلاصِ مجسم، حق گو، بے باک، حکمرانوں کا راہنما، علما کا مقتدیٰ، عوام کا پیشوا اور حاجت مندوں کا ماویٰ نصیب ہواتھا، جس نے حیاتِ مستعار کا بڑا حصہ اللہ کے بندوں کی خدمت میں اور دین حق کی اشاعت و تبلیغ میں بسر کیا، دنیا سے جوملا اس سے کئی گنا زیادہ دنیا والوں کو لوٹا دیا، اسلام کی شان بلند کی اوراہل علم کوعزت کا ایک نشان بخشا کہ آج بھی کس طرح علما شاہ وگداکے دلوں پر حکومت کرسکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ شیخ ابن باز کی ہر خدمت اورنیکی کو شرف قبول بخشے، درجات بلند فرمائے اور امت کو آپ کے نقش قدم پر چلنے والے علما کی قیادت مرحمت فرمائے۔ آمین ٭٭٭