کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 114
پہلوانوں کو کشتی کے دنگل میں خاک چٹادی اور خود کبھی شکست کا نام نہیں سنا۔ 1960ء کی دہائی میں اس کی وفات ہوئی تو پاکستان کا روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘ رقم طراز ہوا: ’’گاما پہلوان کی پیٹھ مٹی سے لگے۔ یہ صورت اس کے جیتے جی دنیا والوں کے لیے حسرت ہی بنی رہی، کفن پہنانے کے بعد ہی گاما کی پیٹھ کو مٹی چھوسکی۔‘‘ اسی گاما پہلوان کے ایک بھائی امام بخش تھے، خود تو مشہور نہیں ہوئے مگر ان کی اولاد نے چچا کانام روشن اور بلند رکھا، چچا کی وفات کے بعد اس میدان کی وراثث انہی کو ملی، مقابلے کے لیے ساری دنیا کوچیلنج کیا ہوا تھا او ر اسی سلسلے میں یورپ وامریکہ کے دورے پر نکلے ہوئے تھے، اثنائے سفر حج کا موسم آیا تو حجاز اترپڑے۔1963 یا1964ء کا حج تھا، ہمارے ایک پاکستانی ساتھی عبدالرحمن ناصر عسکری خود بھی پہلوان تھے اور پہلوانوں کے بڑے قدرداں بھی، (سناہے آج کل وہ پاکستان کے کسی سفارت خانے میں ملٹری اتاشی ہیں ) ان کی ملاقات ایک روز مدینہ منورہ میں ان پہلوان بھائیوں سے ہو گئی، جامعہ اسلامیہ میں زیارت کی دعوت دے دی اوردوسرے دن انہیں شہر سے جامعہ لانے پہنچ گئے، سعودیہ کی موٹر کاریں، بہت شاندار اور جاندار ہوتی تھیں، اس کے باوجود کوئی ٹیکسی والا دوسے زائد پہلوانوں کو ٹیکسی میں بٹھا نے پر راضی نہ ہوا،ٹیکسی کا ٹائر دبتا دیکھ کران کا سانس پھولنے لگا۔ غرض کئی عدد ٹیکسیاں کرکے انہیں لایا گیا تھا، وہ کئی بھائی تھے، بڑے کانام ’’بھولو‘‘ تھا دوسرا’’اسلم‘‘، (بقیہ کے نام مجھے یاد تھے مگر اب ذہن سے نکل گئے ہیں ) پہلوان بھائیوں کے ساتھ ان کے سکریٹریوں کے علاوہ ایک قاری بھی تھے جو بڑے منجھے ہوئے اپنے فن کے کامل اور خوش الحان تھے، مختلف اوقات میں یہ بھائی ان سے فرمائش کرکے قرآن سنتے اور اپنے ایمان کو تازہ رکھتے تھے۔ شیخ ابن باز کے دفتر پہنچے، شیخ سے ملایا، آپ نے بھولو سے مصافحہ کیا تو آپ کو اس کا ہاتھ اس کے بازو اور کندھے تک پھیر تے ہوئے ماشاء اللہ ماشاء اللہ فرماتے رہے، قہوے اور چائے سے تواضع کے بعد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو مختلف صلاحیتیں ودیعت فرمائی ہیں، کسی کو علم، کسی کو عقل، کسی کو مال، کسی کو طاقت اور کسی کو اقتدار عطافرمایا، یہ سب اللہ کی بخشی ہوئی امانتیں ہیں، ان کا