کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 113
کچھ قمریوں کو یاد ہے کچھ بلبلوں کوحفظ
عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں
عالم اسلام اورخصوصاً مسلم اقلیتی ممالک سے آنے والے اشخاص کے بارے میں آپ کو علم رہتا تھا کہ یہ اسلام اورمسلمانوں کا خادم ہے یا علوم اسلام کے احیاء کی فکر میں رہتا ہے۔ ایسے لوگوں کی قدر ومنزلت آپ کے دل میں سواہوجاتی اور بڑی گرم جوشی اور خندہ پیشانی سے اس کا خیر مقدم فرماتے، دیر تک درپیش مشاکل ومسائل کے بارے میں تبادلہ خیال فرماتے۔ چند مشوروں سے نوازتے اور خود ان کی تجاویز اور آراء کو توجہ سے سنتے، نامور ملاقاتیوں میں تحریر وتقریر کے مردِ میداں ہوں تو ان کے افکار وخیالات سے استفادے اور افادے کی خاطر جامعہ کے لکچر ہال میں خصوصی اجلاس کا اہتمام فرماتے،ہم نے ہندوپاک اور دیگر دنیاکی نامور ہستیوں کو اسی ہال میں دیکھا اور سنا، ورنہ ہمارے خواب وخیال میں اس کا تصور تک محال تھا۔
عرب دنیا کی شخصیتوں میں مفتی امین الحسینی (فلسطین)، ڈاکٹر سعید رمضان، علامہ حسنین مخلوف، علامہ محمد متولی شعراوی (مصر)، مصطفی زرقاء، علامہ بہجت البیطار، ڈاکٹر مصطفی سباعی، علامہ محمد المبارک (شام)، علامہ بہجت الاثری، محمد محمود صواف(عراق)،ڈاکٹر تقی الدین الہلالی(مراکش)،علامہ عبد اللہ القلقیلی (اردن)، قاضی ابو بکر جوی(نائیجیریا)اور تونس کے مامور علما کے علاوہ ہندو پاک کے علما میں علامہ بدیع الدین شاہ، مولاناداؤد غزنوی، مولانا سید ابوالاعلی مودودی، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی، ڈاکٹر محمد حمید اللہ(پیرس)وغیرہ کو ہم نے اسی ہال میں قریب سے دیکھا اورشوق سے سنا۔ بعض کو تو باربار سنا، اس فہرست میں اور بھی بہت سارے نام ہیں جو عجلت کی وجہ سے قلم کی گرفت میں نہیں آرہے ہیں۔
یہاں ایک واقعہ تحریر کیے دیتا ہوں جو بڑا سبق آموز بھی ہے۔ (گاما)، یہ نام نئی نسل کے آگے ایک عجوبہ ہوگا، مگر پچاس سال کے اوپر کے جو لوگ ہوں گے وہ واقف ہوں گے۔ سہ غیرمنقسم ہند کے ایک ایسے ناقابلِ تسخیر پہلوان کا نام ہے جس نے ساری دنیا کے نامی گرامی