کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 112
ڈیڑھ گھنٹے کی تقریر سے فارغ ہوئے توشیخ نے تقریر کے گیارہ مقامات پر گرفت فرمائی او ر تعلیقات چڑھائیں تو شیخ شعراوی علم وتحقیق کے میدان کے مایہ ناز انسان تھے، پھر بھی آپ شیخ کی دقتِ نظری کے قائل ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ منصب اورعہدہ کے اعتبار سے مذہبی امور کی سب سے اونچی کرسی آپ کو تفویض کی گئی تھی، علمی تبحر اور تفوق کی کچھ مثالیں تو آپ ملاحظہ فرماچکے ہیں، جس کا مقام اس درجہ بلند ہو عوام کی پہنچ وہاں تک کس قدر مشکل ہوگی، یہ آپ سوچ رہے ہوں گے لیکن شیخ عالم باعمل تھے، علم نے آپ کو بلند مقامات سے سرفراز فرمایا اور عمل نے انکساری اور تواضع کے ساتھ خواص وعوام اورشاہ وگدا کے ساتھ ایسا مربوط اور متعلق رکھا کہ زندگی کا بڑا حصہ عوام کے درمیان عوام کی خدمت میں بسر ہوا، اور خدمت بھی ایسی ویسی نہیں ہمہ گیر اورآفاقی! مذہبی، علمی، معاشی، مادی خدمات کی توان گنت مثالیں دنیا دیکھ چکی ہے، لیکن ایک واقعہ جسے خواص ہی جانتے ہیں آپ بھی پڑھ لیجیے۔ ایک افریقی طالب علم شیخ کے گھر مہمان ہوئے، رات وہیں بسر کی، جس کمرے میں قیام تھا وہاں حمام تو تھا مگر پانی نلکی میں خرابی کی وجہ سے پانی نہیں پہنچ رہا تھا۔ رات تین چار بجے کے درمیا ن شیخ تہجد کے لیے بیدار ہوئے، مہمان طالب علم کو جاگنے کے بعد کوئی پریشانی نہ ہو یہ سوچ کر ایک بالٹی پانی خود اپنے ہاتھوں سے بھر کر اس کے کمرے کے دروازے کے پاس رکھ آئے۔ خود طالب علم کا بیان ہے کہ رات مجھے نیند نہیں آ رہی تھی، کروٹیں بدل بدل کر صبح کا انتظار کررہا تھا کہ درواز ے کے پاس کچھ آہٹ سی محسوس ہوئی، باہر نکل کر دیکھا تو شیخ پانی کا انتظام کررہے تھے اورمیں شرم سے پانی پانی ہو گیا۔ مجھے مزید ایک دن وہاں رکنا تھا مگر شیخ کی زحمت مجھ سے دیکھی نہیں گئی اور میں رخصت لے کرچلاآیا۔(المجتمع کویت نے اس واقعہ کو طالب علم کے حوالے کے ساتھ نقل کیا ہے۔) شیخ کے متواضعانہ مزاج اور خادمانہ انداز سے واقفیت کی بنا پر میں وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس نوعیت کی خدمت کایہ پہلا اور آخری واقعہ ہر گز نہیں ہوسکتا