کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 111
خاصی طویل ہو جائے گی۔مدینہ منورہ کی جو حیثیت ہے اور اس کا جو مقام مسلمانوں کے دلوں میں ہے تو کون صاحبِ حیثیت ہے وہاں آئے بغیر رہ سکتا ہے۔ اصحابِ علم وفضل رشدوہدایت کے مراکز اورعبادات وادعیہ کے مقامات کے ساتھ اس سرچشمۂ علومِ نبوت کی زیارت کو بھی حاصل سفر سمجھتے ہیں، نامی گرامی اہلِ علم کا ورود ہوتا تو جامعہ کے لکچر ہال میں ان کی تقریر کا اہتمام کیا جاتا، طلبہ اورعملے کے لوگوں کے علاوہ اعیانِ شہر کی بھی ایک بڑی تعداد شریکِ مجلس ہوتی، شیخ بن باز کی سربراہی میں اجلاس کی کارروائی عمل میں آتی، شخصیت کیسی ہی ہو، اس کی تقریر میں کوئی بات اسلامی تعلیمات سے انحراف کرتی ہو تو شیخ کے نقد واحتساب اورتعلیق وتبصرے سے محفوظ نہیں رہ سکتی۔ 1965ء میں ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب (اس وقت نائب صدر جمہوریہ ہند تھے) کا بھی اس ہال میں استقبال ہوا، ڈاکٹر صاحب نے سیکولر زبان اور سیاست کے پردے میں کچھ ایسی باتیں کیں جو اسلام کے اصول وسیاست اورتعلیمات کی منافی تھیں، ڈاکٹر صاحب کے ہندوستان واپس ہو جانے کے بعد شیخ کو معلوم ہوا تو مراسلت سے تعاقب کیا۔
1976ء فروری کے مہینے میں مکہ مکرمہ میں ’’اقتصاد اسلامی‘‘ کی کانفرس ہوئی، عالم اسلام کے کوئی تین سوماہرینِ اقتصادیات نے اس میں حصہ لیا، ہندوستان کے وفد میں ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی، ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی اور ڈاکٹر ایم۔ اے۔ خسرو اور دیگر تین نمایندے بھی تھے۔ اجلاس کی کارر وائی ’’انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل‘‘ کے ابن خلدون او ابن سینا ہال میں چلتی تھی۔ ماہرین اپنی رائے پیش کرتے، کسی کی رائے میں ذرا بھی اسلامی اصولِ اقتصادیات سے تعارض یا اختلاف ہو تا تو شیخ اس کی نشان دہی کرکے اصلاح فرماتے۔ کانفرنس کے اختتام پر ہر ایک نے اعتراف کیا کہ شیخ ابن باز کے وجود نے ہی اس کانفرنس کو اسلامی حدود کے دائرے سے باہر نکلنے سے باز رکھا۔
1392ھ میں ’’ندوۃ الشباب‘‘ () کی تاسیس کے موقع پرشیخ محمد متولی شعراوی (مصر کے وزیر اوقاف وشؤن ازہر) ’’مکانۃ المرء ۃ فی الاسلام‘‘ کے موضوع پر