کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 110
میں بھی آپ کی تقریر سے متعلق ایک دو سوال ہیں، مہربانی کرکے جواب دیں۔‘‘ مگر شیخ شنقیطی نے دوٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ ’’قضا وقدر کے موضوع پر سوال وجواب کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور سلفِ صالحین کا معمول بھی یہی تھا، لہٰذا سوال کے بجائے تقریر میں جو مواد اور دلائل آپ کو سنا ئے گئے انہیں پر آپ لوگ غور کریں تو جواب مل جائے گا اور مشکل بھی دور ہو جائے گی۔‘‘پھر اپنی عباقبا سنبھالتے ہوے لکچر ہال سے چشم زدن میں رخصت ہو گئے، شیخ ابن باز اور دیگر اکابر مسکراتے رہ گئے۔
شیخ ابن باز ادارے کے سربراہ تھے اور یہ سب شیوخ آپ کے ماتحت تھے، شیخ کا احترام دل وجان سے کرتے تھے، جامعہ کے قواعد وضوابط کی مکمل پابندی کرتے تھے، لیکن علمی مسائل میں یہ سب اپنی شان اور جدا گانہ پہچان رکھتے تھے۔یہ درویش صفت اورخاکسار مزاج رکھتے تھے، ان میں عناد اورانا کی کوئی بو باس نہیں تھی، اپنی ذات کوامتثال امر میں ہمیشہ آمادہ رکھتے تھے، لیکن علم کے مرتبہ شناس تھے، اسے کسی کے آگے پامال اورآلودہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔
امتحان کا موسم آیا تو شیخ شنقیطی بھی نگراں مقرر کیے گئے،طلبہ نے سوال کا پرچہ آگے کرکے کچھ استفسار کیا تو درس کے انداز میں پوری تشریح اور وضاحت شروع کردی۔ امتحان کمیٹی کے نگران شیخ عبد المحسن بن حمد العباد پریشان ہو گئے، منع کرنے گئے تو ان پر بگڑ گئے اور احادیث سنانے لگے کہ علمی اور دینی مسائل کا جواب نہ دیا جائے تو قیامت کے دن ایسے عالم کے منہ پر لگام لگائی جائے گی۔شیخ عباد نے شیخ ابن باز سے شکایت کی، شیخ نے سمجھانا چاہا مگر وہ اپنی ہی کہتے رہے۔ آخر شیخ ابن بازؒ کی سمجھ میں یہی ترکیب آئی کہ شیخ شنقیطی کو امتحانات کی نگرانی ہی سے سبکدوش کردیا جائے....
اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ انہیں کچھ نہ کہو
جامعہ کے اس لکچر ہال میں دنیا کے نامور شعلہ بیان خطیب، جادو بیان مقرر، سحر طراز ادیب اور انقلاب انگیز زعما کو ہم نے دیکھا اور سنا،نام سنانا شروع کردوں تو یہ فہرست اچھی