کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 109
شہادت اور واضح ثبوت ہے۔ اللہ تعالیٰ صدق وصفا کی اس مثال کو، دنیا کے آخری دن تک دائم وقائم رکھے۔آمین قدرت نے شیخ کو حافظہ ایسا دیا تھا کہ جو پڑھتے وہ پتھر کی لکیر کی طرح دماغ میں نقش ہو جاتا، کتاب غلط ہو سکتی تھی مگر کیا مجال کہ آپ کی یاد داشت میں فرق آجائے۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی پنجابی سے ہم لوگ اسانید کا سبق پڑھ رہے تھے، شیخ درس گاہوں کا دورہ کرتے ہوئے حافظ صاحب کے سبق میں پہنچے۔ ایک راوی کے بارے میں حافظ صاحب نے فرمایا: (( ھو من الطبقۃ الثانیۃ۔)) شیخ نے تصحیح کی : ((ھو من الثامنۃ۔)) حافظ صاحب نے کتاب آنکھوں کے نزدیک لے جاکر بغور دیکھا اور حوالہ دیا کہ ’’ثانیہ‘‘ ہی تحریر ہے۔ شیخ نے فرمایا: ((یمکن خطأ مطبعی ھاتوا نسخۃ أخریٰ۔)) ’’ممکن ہے طباعت کی غلطی ہو، دوسرا ایڈیشن ملاحظہ کیا جائے۔ ‘‘ لائبریری سے دوسرا ایڈیشن آیا تو شیخ کے حافظے کی تائید ہوئی اور کتاب کی غلطی ثابت ہوئی، حالانکہ حافظ محمد صاحب علومِ حدیث کے سمندر تھے، تقسیم سے پہلے جامعہ دار السلام عمر آباد کے ناقابل فراموش اساتذہ میں سے تھے، مسجد نبوی میں مغرب بعد آپ کا درس بخاری ہوتا تو شہر کے تمام مدارس ومکاتب کے اساتذہ حیرت واستعجاب سے آپ کے نکاتِ درس کو نوٹ کرتے جاتے تھے۔ شیخ محمد امین شنقیطی جو تفسیر کے استاذ تھے، وہ بھی اپنے علم وفضل، طہارت وتقویٰ، بے باکی اور سادگی میں اپنی مثال آپ تھے، قضا وقد ر کے موضوغ پر ایک شب آپ کی تقریر ہوئی، تقریر کیا تھی ایمان ویقین کی ایک تصویر اور تعبیر تھی،رواج کے مطابق اختتام پر سوالات کی بوچھاڑ ہوئی، شیخ شنقیطی نے جواب سے انکار کیا تو شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے فرمایا کہ’’خود میرے ذہن