کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 108
اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں شیخ کی عظمت کے نشان اور آپ کی خدمات کے میدان بیان کرنے کی کوشش کروں گا۔ قاری کو متاثر نہ کرسکوں تو یہ میرے قلم کا عجز اور مشاہد کا نقص ہے۔ شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا نشیمن فضا کی اتنی بلندی پر ہے کہ عوام کی پر واز اور اڑان وہاں تک ممکن ہی نہیں۔ڈاکٹر یوسف القرضاوی وقت کے بڑے عالم ہیں، دورِ حاضر کے مسائل حل کرنے میں کھلا ذہن اور روشن دماغ رکھتے ہیں، ان کا ناخنِ فکر گرہ کشائے مشاکل ہوا کرتا ہے۔ شیخ ابن بازؒ نے آپ کے بعض اجتہادات وفتاویٰ پر نکیر بھی کی اور تنقید بھی۔ اس کے باوجود دکتور قرضاوی آپ کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’میں کسی ایسے مسلمان کو نہیں جانتا جوشیخ کو ناپسند کرتا ہو، اور اگر ایسا کوئی نظر آئے تو میں یہی کہوں گا کہ اس کے دین میں خلل ہے، عقیدے میں فتور ہے، یا نیت میں کھوٹ ہے، کیونکہ شیخ ایسے نیک نفس تھے کہ ان کا سارا علم، عمل کے لیے تھا اور سارا عمل اخلاص پر مبنی تھا اور اخلاص، صدق وصفا کا آئینہ دار۔‘‘
(المجتمع :10؍1920)
1157 ھ کی ایک بہت ہی مبارک ومسعود صبح تھی، جب ایک فقیر محمد بن عبد الوہاب اور امیر محمد بن سعود کے درمیان دین کی سر بلندی کے لیے ساتھ جینے اور ساتھ مرنے کا پیمانِ وفا اور عہدو اقرار قائم ہوا۔ اور یہ قافلۂ سخت جان اصلاح ودعوت کی کڑی اور دشوار گزار راہوں میں دیوانہ وار نکل کھڑا ہوا، بڑی جدوجہد، صبر وعزیمت اور استقلال کے بعد کامیابی کے آثار شروع ہوئے، اللہ کے تمام وعدوں کا ظہور ہونے لگا، شرک کے قدم اکھڑ گئے، توحید کی جڑیں مضبوط ہو گئیں، اہل توحید کی باقاعدہ حکومت قائم ہوگئی، اور فقیر وامیر کے پہلے دن کے پیمانِ وفا میں استقرار واستحکام اپنی مثال کو پہنچ گیا۔ امیر محمد بن سعود کا خاندان دنیوی امور کا حکمران ہو گا اور فقیر محمد بن عبد الوہاب کا خاندان دینی مسائل اور مذہبی امور کا نگراں ہوگا۔ آج تقریباً تین سوسال گزر چکے ہیں اور دو وقفے (1233، 1240، 1219، 1309)آچکے ہیں جن میں یہ خاندان حکومت سے بے دخل تھا، اس مدت میں کیا کچھ نہیں بدلا، لیکن امیر وفقیر کایہ معاہدہ ہر دور میں بدستور قائم رہا، جو فریقین کی للہیت، بے نفسی، بے لوثی اورنیک نیتی کی منہ بولتی