کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 107
حسن وخوبی کے ساتھ تبسم اور بشاشت کے ساتھ انجام دیے جارہے ہیں، ہر ایک بقد رظرف وضرورت شاد کام ہو کر آپ کی مجلس سے رخصت ہوتا ہے۔ اللہ نے آپ کے وقت میں بڑی برکت دے رکھی ہے، تبھی تو یہ سارے کام کل پر نمٹائے اور تڑخائے بغیر آج کے آج انجام پارہے ہیں۔ رسائل واخبارات کے مضامین اور خبریں پڑھنے والے تھک جاتے ہیں تو دوسرا ان کی جگہ لے لیتا ہے، آپ نہ صرف سنتے ہیں بلکہ کوئی خبر خلاف واقعہ ہو یا کوئی مضمون اسلام کی غلط ترجمانی کررہا ہو تو اسی وقت اس کی اصلاح اِملا کراکے متعلق مصنف یا مطبع کے نام بھیج دیتے ہیں۔ ایک ہی مجلس میں حاضرین کو اتنے رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ان کے اندر بھی کام کی امنگ جاگ اٹھتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس مجلس میں جس کسی نے بھی ایک آدھ گھنٹہ ہی گزار لیا وہ اس کے لیے ناقابل فراموش بن گیا۔ شیخ کی وفات کی خبر نے ایسے تمام مشاہدین اور خوشہ چینوں کو متحرک کرکے رکھ دیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جس کولکھنا آتاہے وہ لکھے جارہا ہے، جس کو بولنا آتا ہے وہ بولے چلا جارہا ہے اور جو دونوں سے محروم ہے وہ رونے رلانے میں مصروف ہے.... کوئی خاموش یہاں آج دکھائی نہیں دیتا زندگی کے چند لمحے آپ کے سایۂ عاطفت میں گزارنے والے اپنے آپ کو خوش نصیب گردانتے ہوں تو میں اپنے آپ کو کیا سمجھوں، میرے نصیب نے پورے چار سال شیخ کی قربت اور تر بیت میں گزارنے کی سعادت حاصل کی۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنی نا اہلی، خام کاری اور نادانی کی وجہ سے بقدر ذوق استفادہ نہ کرسکا اورآپ کی خاک پاکو سرمۂ بصیرت بنانے سے محروم رہا۔شیخ کی عقیدت وعظمت کا سکہ روزِ اول سے میرے دل ودماغ پر چھا یا رہا اوراس عقیدت وعظمت میں ایسا کھویا کہ اپنے آپ کو بنانے اورسنوار نے کے بجائے صرف شیخ کو دیکھنے، سننے، سونگھنے اور پڑھنے میں چار سال گزار دیے اور جیسا میں نے آپ کو پایا اس کی تصویر اور تعبیر کے لیے میرے پاس نہ اس پائے کا قلم ہے اور نہ برش....!