کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 106
سما گیا تھا۔ وقتِ ضرورت ان سب کا استحضار اور ان سے استشہاد پر کمال درجے کا عبور تھا، آپ کے اساتذہ مملکت کے نامی گرامی علمائے دین تھے، شیخ محمد بن عبد اللطیف آل شیخ، شیخ صالح آل شیخ، شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ اور دیگر اساطین علم نے آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔ شیخ نے اپنی عملی اور تدریسی زندگی کا آغاز مسجد، مکتب اور معہد سے کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے مملکت کے تمام مذہبی، علمی، تحقیقی اوررفاہی اداروں کی سر پرستی کی ذمہ داری آپ کو سونپ دی گئی۔ ان عہدوں اور کرسیوں سے اللہ کے اس فقیر کی عظمت واہمیت میں کیا اضافہ ہوتا، البتہ یہ ادارے، تحریکیں اور تنظیمیں شیخ کر نگرانی میں بڑی مستعد، مستند اور معتبر بن گئیں اور ان کی شہرت اوردائرئہ کار میں جیسے چار چاند لگ گئے۔ شیخ وہی شیخ رہے، نہ مسجد کا درس چھوڑا اور نہ اپنے گھر کی علمی مجلس کا دروازہ بند کیا۔ مرتبے بڑھتے جارہے ہیں۔ لیکن شیخ کے کریمانہ اخلاق، حکیمانہ مزاج، مشفقانہ سلوک اور مربیانہ طرز میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑا ؛بلکہ آپ کے حسن معاملے میں بھی اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ہر طبقے کا آدمی بغیر کسی تحفظ اورتکلف کے اپنی پیاس بجھا نے صبح سے رات گئے تک پہنچتا رہتا۔ ہر ایک کی پیاس مختلف ہوتی، علمی پیاس ذہنی افلاس، دینی راہنمائی اور مادی احتیاج کے ساتھ لوگ آتے رہتے اور سیراب وشاداب ہو کر واپس ہوتے، شیخ چاہے گھر پر ہوں یادفتر میں، ایک دربار کا سماں ہوتا اور دربار بھی خاص نہیں، دربارعام، جس میں شاہ و گدا اور خواص وعوام کا ازدحام رہتا اور حیرت کی بات یہ کہ مختلف النوع کام کھلے عام ہی یکساں انجام پاتے رہتے۔ بحث و نظر کے مسائل ہیں، اجتہاد و فتاویٰ کے سوالات ہیں، علمی تحقیقی امور ہیں، دینی مذہبی راہنمائی ہے، دفتر ی کاروائی ہے، شکوہ اور شکایتوں کے طومار ہیں، سفارش اور توصیہ مانگنے والوں کی طویل قطار ہے، جواب طلب خطوط کے انبار ہیں، مجلات ورسائل کی بھر مارہے، مراجع کے لیے نئی پرانی کتابوں کی دیوارہے اور ملنے ملانے والے سلسلہ وار ہیں۔ اتنی ڈھیر ساری مصروفیتوں کو دیکھ کرعام آدمی وحشت اور جھلاہٹ میں ہوش وخرد کھودے تو کوئی عجب نہیں۔لیکن شیخ کو آپ دیکھیں گے سارے کام