کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 105
ہمارے بھی والد ہیں اورذاتی طور پرمیرے لیے وہ اس سے بھی بڑی حیثیت رکھتے ہیں، ان کی وفات آپ ہی کا نقصان نہیں ہمارا نقصان ہے، عالمِ اسلام کا نقصان ہے اور ساری ہی دنیا کے مسلمانوں کا نقصان ہے، اور ان کی وفات سے ہم ایک ایسے انسان کی سرپرستی سے محروم ہو گئے جو ہمارے لیے سب سے محترم تھی،ان کا صدق واخلاص، ان کی وفااور صفا ہمارا سب سے قیمتی سرمایہ تھا۔ ہماری خیرخواہی اور راہنمائی کے سلسلے میں وہ کوئی کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ‘‘
(روز نامہ عکاظ۔15؍مئی 1999ء)
یہ توشا ہ کے تعزیتی کلمات تھے، اور دیگر شہزادوں، امراء، وزراء اور علما نے اپنے جذبات اور تعلقات کا اظہار بڑے سے بڑے الفاظ میں کرنے کے بعد بھی اعتراف کیا کہ ہر بڑا لفظ شیخ کی بڑائی کے آگے بہت ہی چھوٹا ہے۔ اس اعتراف میں جہاں شیخ باکمال نظر آتے ہیں، وہیں شاہ اورشاہزادے بھی آپ کو بہت با اخلاق نظر آئیں گے۔ ایک عالم دین کے ساتھ حکمران طبقے کی یہ عقیدت دونوں کے کردار کی عظمت کا عنوان اوراعلان ہے۔
شیخ کی ولادت ایک عام زراعت پیشہ خاندان میں ذی الحجہ1330ھ (1901ء)کی ایک مبارک ساعت میں ہوئی، خاندان کے تعلیم یافتہ افراد سے ابتدائی تعلیم کا آغاز اور قرآن مجید کا حفظ مکمل کیا، دینی علوم کے حصول میں آگے بڑھتے رہے، سولہ سال کی عمر کو پہنچے تو آنکھوں کی کوئی بیماری لاحق ہوئی، بینائی متاثر ہونے لگی، اور چارسال بعد دنیا مکمل طور پر اندھیری ہوگئی اور آخرت کی روشنی آپ کا سہارا اور جینے کا حوصلہ بن گئی۔ قدرت کوئی شے لیتی ہے تو اس کا عوض بہت بھاری دیتی ہے، شیخ کے ساتھ وہی ہوا، آنکھوں کی روشنی لے کر دل ودماغ کوروشن کردیا، ذہن رسا اور حافظہ بلا کا عطا کیا، جو کچھ سنتے وہ آپ کے دماغ میں پتھر کی لکیر کی طرح نقش ہو جاتا، قرآن تو آپ کو حفظ تھا ہی، احادیثِ نبوی کا ایک خزانہ، ائمہ ومحدثین کے اجتہادات وفتاویٰ کا مجموعہ، رجال کی سوانح حیات، تاریخ اسلام کے روشن اور سبق آموز صفحات، فقہاء ومتکلمین کے اصول ودلائل کا ایک ذخیرہ یہ سب آپ کے دماغ میں