کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 104
عبد اللہ بن باز‘‘ تھا۔ پہلی ملاقات ہی میں آپ کی سادگی، نیکی، اخلاص، اخلاق، للہیت، قوتِ حافظہ اور استحضار علمی کے نقوش ہمارے ذہن ودماغ میں مرتسم ہو گئے۔ پھر جیسے جیسے دن گزرنے لگے ہم آپ سے قریب تر ہوتے گئے اور پہلے دن آپ کے اوصاف وکمالات کی جو اجمالی شکل دیکھی اس کی تفصیل عیاں اور نمایاں ہونے لگی۔ نام عبد العزیز تھا، اپنے کام، کارنامے اور خدمات کی بدولت ہر دل عزیز تھے، چلتے تو پورا ایک کارواں آپ کے جلومیں ہوتا جس میں امراء، علما، طلبہ اور محتاج ومساکین سبھی شامل ہوتے اورہر طبقے کی ضرورت پوری کرنے اور اس کی پیاس بجھانے کا سامان آپ کے پاس ہوتا۔ خدمتِ خلق کی بدولت قدرت نے آپ کو طویل عمر دی، حیاتِ مستعار کی لگ بھگ نوے بہاریں آپ نے دیکھیں، اپنے لیے کم جیے، دوسروں کو جِلادینے میں زیادہ مصروف رہے، دنیا نے اپنی ہر عزت اور دولت آپ کے قدموں پر نچھاور کی اور آپ جہاں والوں کے دکھ درد اور رنج وغم میں شریکِ کار رہے۔ افراد، ادارے اور مدارس و مساجد ہی نہیں، تحریکیں، تنظیمیں اور حکومتیں تک آپ کے علم وفضل اور داد ودہش سے سیراب اور فیض یاب ہوتی رہیں۔ آپ کا وجود کڑی دھوپ میں ایک سایہ دار درخت کی حیثیت رکھتا تھا، جس کی چھاؤں میں بادشاہوں اور شہزادوں کو بھی روحانی غذا، مذہبی راہنمائی اور سکون واطمینان کی دولت نصیب ہوتی تھی۔ امت کے ہر طبقے کو آپ کی ضرورت تھی، کسی بھی مرتبے کا کوئی شخص آپ کی ذات سے بے نیاز نہیں تھا۔ اتنی طویل عمر کے باوجود کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آیا کہ آپ جلد یا بدیر رخصت ہو جائیں گے، یہی وجہ تھی کہ آپ کی وفات کی خبر سعودی حکمرانوں اورعالمِ اسلام کے واقف کاروں پر بجلی بن کر گر ی اور سب تڑپ کرکلیجہ مسوس ہو کر رہ گئے۔ ہر ایک نے اس کو اپنا ذاتی نقصان اورنصیب کا حرمان سمجھا اور جانا۔ خادم الحرمین ملک فہد بن عبد العزیز (رحمہ اللہ)کاپیمانۂ صبر چھلک گیا، بے قراری کاعالم یہ تھا کہ بستر علالت سے اٹھ کر نمازِ جنازہ میں شریک ہونے کے لیے مسجد حرام پہنچ گئے، شیخ کے صاحبزادوں کو گلے لگا کر گلو گیر آواز میں گویا ہوے: ’’آپ کے والد (اللہ کی رحمت ہوان پر)صرف آپ ہی کے نہیں بلکہ وہ