کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 103
آیات نے میری عمر رفتہ کو آواز دے کر ان سب یادوں اورملاقاتوں کو ایسے زندہ، تازہ اورتابندہ کردیا جیسے وہ چھیالیس (46)برس پرانی نہ ہوں بلکہ کل ہی کی ہوں۔ شعبان 1381ھ کی آخری تاریخ تھی، ہم طلبہ صبح صبح جامعہ اسلامیہ وارد ہوئے، شیخ محمد ناصر العبودی جنرل سکریٹری، وائس چانسلر سے ملانے ان کے دفتر لے گئے۔ داخل ہوئے تو دیکھا کمرہ بہت بڑا ہے، اختتام پر طویل میز ہے اور اس سے متصل ایک اونچی کشادہ کرسی رکھی ہوئی ہے، مگر وہ مرکزی کرسی خالی تھی، دائیں اور بائیں متعدد کرسیاں تھیں، مختلف حلیوں کے لوگ ان پر براجمان تھے۔ مرکزی کرسی خالی دیکھی تو سمجھ گئے کہ نائب الرئیس ابھی تشریف نہیں لائے۔ شیخ عبودی میز کی بائیں طرف والی قطار کی آخری کرسی کی طرف لے گئے اوراس پر براجمان ایک بزرگ کو ہماری آمد کی اطلاع دی، وہ فوراً کھڑے ہو گئے، ہم سے معانقہ کیا، سفر کے بارے میں دو ایک سوال کیے، پھر وہ ساری حدیثیں ایک ایک کرکے سنانے لگے جو علم کی راہ میں نکلنے والے طالب علم کی فضیلت اور اجروثواب سے متعلق تھیں۔ احادیث ختم ہوئیں تو ہمیں ہمت دلاتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ خوب دل لگاکر نیک نیتی کے ساتھ، محنت اورتوجہ سے اپنے آپ کو حصول علم میں مصروف رکھیں۔ اخیر میں ہماری میز بانی کے لیے ہدایات دے کر ہمیں رخصت کردیا۔ ہم جب تک وہاں رہے حیرت واستعجاب میں مبتلا رہے، کانوں کو ہم نے کم زحمت دی، باتیں سننے سے زیادہ ہماری آنکھیں آپ کے سراپا پرجمی رہیں۔ ہم چشم بصارت سے آپ کے جسم کو دیکھ رہے تھے اورآپ نورِ بصیرت سے ہماری روح میں روشنی کی کرن بکھیر رہے تھے اور دل گواہی دے رہا تھا کہ یہ شخصیت عظیم ہے اور بلا شبہ اہل اللہ اور اہل التقویٰ میں سے ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ یہی نائب الرئیس ہوتے، اس آرزو کے ساتھ ہم باہر نکلے، دیگر لوگوں سے ملاقاتیں ہوئیں اور بات چیت کا سلسلہ چلا تو معلوم ہوا کہ وہی بزرگ نائب الرئیس ہیں۔ انکساری اور کچھ معذوری کی وجہ سے وہ اپنی کرسی چھوڑ کر داہنی قطار کی کرسیوں پر اپنے سکریٹری کے ساتھ تشریف فرماہوتے ہیں۔ یہ تھا ایک منظر ہماری پہلی ملاقات کا، اس عظیم شخصیت سے جس کا نام ’’عبد العزیز بن