کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 102
بچانے کے لیے ایک ایسا مضبوط سائبان عطا کرے جو، آندھی اورطوفان کی یلغار سے بھی محفوظ رکھے اورشیخ کا نعم البدل مرحمت فرمائے۔ آمین یارب العالمین آپ کا انتقال 26؍محرم الحرام 1420ھ جمعرات کے دن دوپہر کے وقت طائف میں ہوا، جمعہ کے روز مکہ مکرمہ کے قبرستان ’’المعلی‘‘ میں تدفین ہوئی، وفات کے وقت آپ کی عمر پچاسی(85) سال کے قریب تھی، ہوش سنبھالنے کے بعد عمر کا ایک ایک دن علم کی خدمت، دین کی اشاعت اوردنیا ئے انسانیت کی رشد و ہدایت اور خدمتِ خلق میں صرف ہوا ؎ شادم از زندگی خویش کے کارے کردم شیخ موصوف سے شاگردی کا شرف اس ہیچ مداں کو حاصل ہے۔ آپ کی وفات حسرت [1]
[1] (سچ تو یہ ہے کہ استاذ محترم مولانا حفیظ الرحمن عمری حفظہ اللہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں اور نہ ہی آپ تعارف کے اس رسم کو پسند فرماتے ہیں۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ آپ نے تصنیف وتالیف میں قدم آگے نہیں بڑھایا؛ ورنہ آپ کے رشحاتِ قلم کا جواب نہیں ملتا۔ میں نے ایک دفعہ سعودی عرب میں ایک ایسے آدمی سے آپ کی علمی صلاحیت کے بارے میں تعریف کرتے ہوئے سنا تھا جو اپنے علاوہ کسی کی تعریف بیان کرنا تو کجا، کسی غیر کی تعریف سننا بھی گوارا نہیں کرتا۔ مجھے یاد ہے اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اس وقت ہندوستان میں جو ذہین علما ہیں ان میں مولانا حفیظ الرحمن عمری کا نام صف اول میں ہے۔ یہ حق ہے کہ استاذ مکرم نے جان بوجھ کر قلم کو کماحقہ جنبش نہیں دی؛ لیکن یہ بھی حق ہے کہ آپ نے ساری دنیا میں اپنے شاگردوں کا جال پھیلا دیا جن کی کتابیں خلیجی ممالک میں مکتبات کی زینت بنتی ہیں۔ کتنا معقول جواب دیا تھا ایک مرتبہ میرے استاذ مکرم جناب سعید احمد عمری حفظہ اللہ نے: ’’میں کتابیں نہیں لکھتا تو کیا ہوا، میں تم جیسے شاگردوں کو تیار کر رہا ہوں، آگے چل کر تم کتابیں لکھو، میں کتاب لکھتا نہیں بلکہ لکھنے والا تیار کر رہا ہوں !!‘‘ یہ آپ نے میرے اس سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ ’’کیا وجہ ہے کہ آپ کتابیں نہیں لکھتے؟!‘‘ اسی پر استاذ مکرم جناب مولانا حفیظ الرحمن عمری حفظہ اللہ نے بھی عمل کیا اور دنیا کا کونسا خطہ ایسا ہے جہاں آپ کے باصلاحیت شاگرد نہیں ہیں۔ میں بھی آپ کا ایک ادنیٰ شاگرد ہوں۔ اور میں بھی کہتا ہوں کہ آپ جیسے اساتذہ کی برکت ہی سے میں بھی کچھ لکھنے کے قابل ہو سکا ہوں۔ یہ شجر آپ ہی اساتذہ کا لگایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ میری طرف سے ہمارے تمام اساتذہ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ استاذ مکرم تفسیر اور فقہ کی تدریس میں کافی مہارت رکھتے ہیں۔ آپ کے درس میں بیٹھنے والا طالب علم خود کو خوش نصیب سمجھتا ہے کیونکہ آپ کا درس انتہائی جامع اور پرمغر ہوتا ہے۔ میں نے بھی آپ سے تفسیر پڑھی ہے۔ آپ کا مسکراتا چہرہ ہر وقت میرے سامنے رہتا ہے۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کا سایہ تادیر امت مسلمہ پر فگن رکھے کہ طالبانِ علومِ نبوت اپنے علم کی تشنگی آپ سے بجھاتے رہیں۔ آمین