کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 101
کے مصائب ومسائل سے آگاہ تھے اور ہر موقف اور میدان میں ان کے ہر قسم کے تعاون میں نہ صرف پیش پیش تھے بلکہ امیر الجیش تھے۔ نابینا ہونے کے باوجود طبقۂ علما وامراء، عوام وخواص اور سعودی حکمرانوں کی آنکھوں کی روشنی تھے، اور ان کے دین ودنیا کے سفر کی راہ میں منارئہ نور اورسنگِ میل کی حیثیت رکھتے تھے۔ غرض کوئی خوبی اورنیکی ایسی نہیں جو قدرت نے آپ کی ذات میں ودیعت نہ کی ہو اور وہ بھی پوری شانِ فیاضی کے ساتھ ؎ ولیس علی اللّٰہ بمستنکر أن یجمع العالم فی واحد شیخ ابن باز رحمہ اللہ کی وفات حسرت آیات صرف سعودیوں کے لیے نہیں پوری امت مسلمہ کے لیے ایک عظیم اورطویل مدت تک کے لیے ناقابل تلافی خسارہ ہے۔ شیخ کی نیکیاں، خوبیاں اور خدماتِ جلیلہ ایسی زندہ اور تابندہ تھیں کہ سب کو یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے گا اورا علیٰ علیین میں شہداء وصالحین اور علمائے ربانیین کی رفاقت عطا کرے گا۔ پسماندگان کے حق میں دعا ہے کہ اللہ ان سب کو کڑی دھوپ سے [1]
[1] (آپ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید رحمہ اللہ کے ساتھیوں میں سے ہیں۔ مدینہ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد آپ نے نائیجریا میں تین سالوں تک دعوت وتبلیغ کی خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد ملائشیا میں پانچ سالوں تک بحیثیت مدرس خدمات انجام دیں۔ اور اس کے بعد وطن عزیز تشریف لے آئے۔ یہاں آپ نے اپنا علمی مسکن جامعہ دار السلام عمر آباد کو بنایا اور پھر اس کے بعد عمر آباد کی تربت سے ایسے چمٹے کہ چمٹے رہ گئے۔ یہ آپ کی عمر آباد سے بے حد محبت اور الفت کی اعلیٰ دلیل ہے۔ ایک استاذ کی قابلیت کا اندازہ اس کے تربیت یافتہ شاگردوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ آپ کے شاگردوں میں ایسے ایسوں کا نام سرفہرست ہے جو آسمانِ علم وفن پر اپنا آشیانہ رکھتے ہیں۔جیسے ڈاکٹر محمد ضیاء الرحمن عمری (مدینہ منورہ)، شیخ عبد الہادی عمری (برطانیہ) اور ڈاکٹر آ۔ کے۔ نور محمد مدنی۔ آپ کے مضامین اور مقالات ہند وبیرون ہند کے مختلف میگزین میں گاہے گاہے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ آپ کے مضامین ومقالات کی تعداد سیکڑوں میں ہے۔ ہندستان میں ٹیلی وژن اور ریڈیو کے کئی چینلوں سے آپ کے دروس وغیرہ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آپ نے کئی ایک عربی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا ہے۔ مثلاً: دکتور طٰہٰ جابر فیاض العلوانی کی کتاب ’’أدب الاختلاف فی الإسلام‘‘، ڈاکٹر عبد ا لصبور مرزوق کی مایہ ناز کتاب ’’الغزو الفکری‘‘ اور ڈاکٹر مصطفی السباعی کی کتاب ’’ہکذا علمتنی الحیاۃ۔‘‘ ((