کتاب: علامہ ابن باز یادوں کے سفر میں - صفحہ 100
سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ
(از:....مولانا حفیظ الرحمن اعظمی عمری مدنی)٭ [1]
ملک وملت کی برگزیدہ شخصیتوں کی وفاتِ حسرتِ آیات پر میں نے بیسیوں بار تعزیتی کلمات کہے اورلکھے ہیں۔ اس موضوع کے بے شمار مصرعے، محاورے اورضرب الامثال مجھے ازبر ہیں، لیکن آج جس شخصیت پر مجھے لکھنا ہے وہ ایسی قدآور ہے کہ ہر مصرع اورمحاورہ اس کے قدوقامت سے بہت چھوٹا اور کمتر ہے۔ بلاشبہ سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز رحمہ اللہ کی ہستی تمام اوصاف حمیدہ، کمالاتِ ستودہ اور خصائلِ خیر کی جامع تھی، آپ بے مثال عالم ہی نہیں عالم باعمل بھی تھے، طہارت وتقویٰ میں کامل واکمل تھے، دین خالص کے علمبرداری ہی نہیں اس کے اخلاق وکردار کے وارث وامین ہی نہیں، ان کے ترجمان اورپیکر مجسم بھی تھے۔ خدمت خلق کے جذبے سے معمور اورسرشار تھے، سخاوت وخیرات کے میدان میں حاتم کوپیچھے چھوڑ چکے تھے، جرأت وبے باکی اور حق گوئی میں امام احمدبن حنبلؒ اور امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی روح رکھتے تھے۔ علم کی اشاعت اور علما کی قدرافزائی آپ کا مسلک تھا، ساری دنیا کے مسلمانوں
[1] استاذ محترم کا یہ معلوماتی مضمون ماہنامہ صراط مستقیم برمنگھم کے شمارہ اکتوبر نومبر 2008ء میں دو قسطوں میں شائع ہوا تھا۔ جب میں نے استاذ محترم سے ان کی سوانح کے بارے میں ایک صفحہ لکھنے کو کہا تو انھوں نے یہ قیمتی مضمون بھی ارسال فرما دیا۔ اس کے لیے میں ان کا بے حد ممنون ہوں ....(ریاضی)
[2] مولانا حفیظ الرحمن اعظمي عمري کا تعارف:
آپ میرے استاذ مکرم مولانا حفیظ الرحمن عمری ہیں۔ آپ کے والد مکرم کا نام محمد نعمان اعظمی ہے۔ آپ کی ولادت سن 1941ء میں جنوبی ہند کے صوبہ تامل ناڈو کے دار الحکومت مدراس میں ہوئی۔ آپ نے بچپن ہی میں قرآن کریم حفظ کر لیا۔ جامعہ دار السلام عمر آباد سے آپ نے فضیلت کی ڈگری حاصل کی اور وہیں سے افضل العلماء کی تیاری کر کے اس کے امتحانات پاس کیے۔ جامعہ دار السلام عمر آباد سے فراغت کے بعد آپ کا داخلہ جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں ہو گیا۔ اور مدینہ سے سن 1384 ھ میں سند تخرج ممتاز درجے سے حاصل کی۔