کتاب: اللہ سے محبت کیوں اور کیسے ؟ - صفحہ 25
اور اس کے پیدا کرنے والے کی ذات و صفات اور حقوق و اختیارات کیا ہیں۔ اللہ تعالی کا احسان عظیم ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی رہنمائی کیلئے کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی آفاق کی نشانیوں کے علاوہ شروع ہی سے اپنے مالک کے بارے تمام باتوں کا علم اِسے خدا کے برگزیدہ بندوں پیغمبروں کی زبانی ہوتا رہا یا آسمانی کتب اس کے لئے علم و عرفان کا ذریعہ بنا رہے۔ دُنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری اور نہ آج ہے جو مِن حیث القوم اللہ کے وجود سے انکار کرے۔ کچھ نہ کچھ ہیرے تو ہر زمانہ میں موجود ہے۔
روس کی دہریت پرستی کا بھی شہرہ رہا ہے۔ لیکن روسی حکمران اپنی پانچ فیصد آبادی کو بھی منکررب العالمین نہیں بنا سکے۔ جب کہ اللہ کی نفی کرنے کیلئے پروپیگنڈہ کرتے ہوئے چالیس برس سے زائد ہو گئے ہیں اس پروپیگنڈے پر دولت اور طاقت خرچ کی لیکن عالم یہ ہے کہ پچھلی جنگ عظیم میں جرمن فوجیں مسلسل فتوحات حاصل کرتی ہوئی روس میں گھستی چلی گئیں۔ تو اسٹالن نے عوام سے کہا کہ مسجدوں اور گرجوں میں جا کر اللہ تعالی سے دُعا کرو کہ وہ ہمیں اس مصیبت سے نجات دلائے گویا یہ لوگ اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں اور اس کے خلاف پروپیگنڈے اور مہمیں چلاتے رہتے ہیں۔ وہ بھی اللہ تعالیٰ کے وجود کو ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
وجودِ باری تعالیٰ کا اقرار اِنسانی ضمیر کی آواز
ایک بالا تربیتی کی حاکمیت کا تصور انسان کے ضمیر میں رکھ دیا گیا ہے۔ چنانچہ بار بار دیکھنے میں آیا ہے۔ کہ کوئی شخص صحت و تندرستی کرسی و اقتدار جاہ و منصب اور خاندانی غرور تکبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکاری بھی ہو جائے تو تنگی و مصیبت بیماری و نقصان نا موافق اور مشکل حالات میں وہ خود کو بے بس پاتا ہے۔ اور وہ بے ارادہ ایک اللہ تعالیٰ کو پکار اُٹھتا ہے اس لیئے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود کا اقرار اس کے ضمیر کی آواز سے مغرور سرکش انسان کی بات ہی کیا اس کی اوقات ہی کیا اس کی پیشانی کا ایک ایک بال اللہ تعالیٰ کی مٹھی میں ہے یہی وجہ ہے کہ تکالیف اور خطرات کے وقت آگ قابو سے باہر ہو جانے کے وقت دریا میں ڈوبنے کے وقت