کتاب: اللہ سے محبت کیوں اور کیسے ؟ - صفحہ 24
پھر جب دوسری تمام چیزوں کے وجود کو بالواسطہ دلیل کی بنیاد پر مانا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے وجود کو بالواسطہ دلیل کی بنیاد پر کیوں نہ مانا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کا وجود اتنا ہی ثابت شدہ ہے جتنا کہ اس دنیا کی کوئی دوسری چیز اس دنیا کی ہر چیز بالواسطہ دلیل سے ثابت ہوتی ہے اس دنیا کی ہر چیز اپنے اثرات کے ذریعہ سے پہچانی جاتی ہے ٹھیک یہی نوعیت اللہ تعالی کے وجود کی ہے۔ اللہ تعالی اپنی نشانیوں کے ذریعہ یقینا دکھائی دیتا ہے۔ بلاشبہ اللہ تعالی کے علمی ثبوت کیلئے یہی کافی ہے۔ تلاشِ خالقِ کائنات کبھی کبھی اِنسان کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ میں کیا ہوں کہاں سے آیاہوں پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھا؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کائنات میں مُجھے کیا کردار ادا کرنا ہے میری زندگی کا انجام کیاہو گا مُجھے پید اکرنے والا کون ہے؟ اور کیسا ہے؟ اور اس نے مُجھے کیوں پیدا کیا۔ یہ تمام سوالات اپنی اور اپنے خالق کی تلاشِ جستجو پراُکساتے ہیں۔ اور وہ بے چینی اور مضطرب رہتا ہے بہر صورت خالق کی پہچان اس کی گٹھی میں پڑی ہے۔ خواہ وہ مزید پریشاں ہو یا تلاش کرتے کرتے اپنے خالق کو پالے۔ شروع ہی سے مختلف ادوار کے اِنسانوں کو نہ صرف اپنے خالق بلکہ اپنے بارے میں بھی شدید غلط فہمی رہی ہے۔ کبھی تو یہ اِنسان شداد نمرود، فرعون قارون کے روپ میں غرور تکبر اور جھوٹی اَنا کا مجسمہ بن بیٹھا اور کبھی اس نے خود کو اتنا گرالیا کہ چاند ستارے سورج آگ درخت اور آندھی کے سامنے سر جھکا دیا ۔ اِنسان کی گمراہی اور ذلالت اسی وجہ سے رہی ہے کہ اس نے اپنے حقیقی خالق و مالک کو پہنچاناہی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جب اِنسان اپنے مالک کی پہچان کر لیتا ہے تو اِسے اپنی حیثیت اور مقام کا اندازہ خود بخود ہو جاتا ہے۔ کہ وہ کون ہے کہاں سے آیا ہے ۔ دنیا میں اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے۔ وہ کس کی بندگی و اطاعت کرے