کتاب: اللہ سے محبت کیوں اور کیسے ؟ - صفحہ 21
حقیقت وجود باری تعالیٰ اللہ کے وجود کا سب سے بڑا ثبوت اِنسان کا خود اپنا وجود ہے۔ (فن عرف نفسہ معرف ربہ) اللہ تعالی جیسی ہستی کو ماننا جتنا ہے اتنا ہی مُستعید یہ بھی ہے کہ اِنسان جیسی ہستی کو مانا جائے اگر ہم ایک اِنسان کو مانتے ہیں تو ایک اللہ کو ماننے میں بھی ہمارے لئے کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ قرآن مجید میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ اللہ تعالی نے اِنسان کے اندر اپنی رُوح پھونکی ۔……(الحجر29) اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالی کی صفات کا ایک بشری نمونہ ہے۔ وجودِ زندگی، علم قدرت، ارادہ، اختیار، اور دوسری صفاتِ کمال جن کا حقیقی مظہر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ ان کا ایک عکس نہ کہ حصّہ اِنسان کی ودیعت کیا گیا ہے۔ ٭ اِنسان کسی بھی اعتبار سے اللہ تعالی کا جرْء نہیں مگر وہ اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کی ایک محسوس دلیل ہے جس کو غیبی طور پا ماننے کا اس سے مطالبہ کیا گیا ہے اِنسان کے اندر وہ ساری خصوصیات شہود کے درجہ میں موجودہ ہیں جن خصوصیات کے ساتھ ایک اللہ تعالی کو غیب کے درجہ میں ماننے کا اس سے مطالبہ کیا گیا ہے۔ اِنسان ایک مستقل وجود ہے۔ وہ دیکھنے سننے بولنے کی صلاحیت رکھتا ہے وہ سوچتا ہے اور منصوبہ بناتا ہے ۔ وہ اپنے ذاتی ارادے کے تحت حرکت کرتا ہے وہ مادہ کو تمدّن میں تبدیل کرتا ہے ۔ وہ ریموٹ کنٹرول سسٹم کے ذریعہ خلائی مشین کو چلاتا ہے وہ اپنی ذات کا شعور رکھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ میں ہوں انہی صفات کی کامل ہستی کا نام اللہ تعالیٰ ہے۔ اِنسان اور اللہ تعالی میں فرق یہ ہے کہ اِنسان کا وجود غیر حقیقی ہے اور اللہ تعالیٰ کا وجود حقیقی ہے