کتاب: اللہ سے محبت کیوں اور کیسے ؟ - صفحہ 138
الا انبئکم بخیر اعمالکم وازکھا عند ملیککم وارفعھا فی درجاتکم وخیرلکم من انفاق الذھب والورق وخیر لکم من ان تلقوا عدوکم فتضربوا اعناقھم ویفربوا اعناقکم قالوا بلی قال ذکر اللّٰه ……(مالک، احمد ترمذی، ابن ماجہ)
کہا میں تمہیں تمہارے ان عملوں کو نہ بتاؤں جو تمہارے سب عملوں سے بہتر ہیں اور تمہارے عملوں کے درجوں میں سب عملوں سے بلند درجے والے ہیں اور سونا چاندی کے خرچے کرنے سے بھی بہتر ہیں اور اس سے بھی بہتر ہیں کہ تم اپنے دُشمن سے ملو اور تم ان کی گردنوں کو مارو اور وہ تمہاری گردنیں ماریں یعنی جہاد فی سبیل اللہ سے بھی بہتر ہیں صحابہ کرام نے عرض کیا ہاں فرمایئے آپ نے فرمایا یادِ خدا یعنی ذکر الٰہی سب عملوں سے حتیٰ کہ جہاد سے بھی افضل ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
یعول اللّٰه تعالی انا عند ظن عبدی بی وانا معہ اذا ذکرنی فان ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسی وان ذکرنی فی ملاء ذکرتہ فی ملاء خیرمنھم ……(بخاری و مسلم)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے نزدیک ہوں یعنی میرا بندہ جیسا میرے ساتھ گمان کرے گا میں ان کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کروں گا جب وہ مجھے یاد کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوں اگر اس نے مجھے اپنے دِل میں یاد کیا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دِل میں یاد رکھتا ہوں اور اگر اس نے مجھے کسی جماعت میں یاد کیا ہے تو میں اُس کو ایسی جماعت میں یاد رکھتا ہوں جو اُن سے بہتر ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اگر میرا بندہ میرے ساتھ مغفرت اور بخشش کی اُمید رکھتا ہے تو اس کے خیال کے مطابق معاملہ کروں گا اور اُسے بخش دوں گا اس لئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن رکھنا چاہیے۔ اور یہ حسن ظن حُسن عمل کی وجہ سے ہے خدا کی رحمتوں کی اُمید ہو اور اس کے عذابوں سے ڈرتے رہنا چاہیے نہ اس کی رحمتوں سے مایوس ہو نہ