کتاب: الصادق الامین - صفحہ 97
چکا تھا کہ وہ لوگ احساسِ زیاں بھی کھوچکے تھے۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ زمانۂ جاہلیت کی مصیبتیں اقوامِ عرب ہی کے ساتھ خاص نہیں تھیں ، بلکہ اس دور کی تمام تر بیماریاں دوسری اقوام میں بھی اسی طرح پھیلی تھیں جس طرح اقوامِ عرب میں، اور سارا عالم ان امراض کے زیرِ اثر سسکیاں لے رہا تھا، اور اس نبی خاتم کی شدید ترین ضرورت آگئی تھی جنہیں اللہ تعالیٰ نے بالآخر دنیا والوں پر رحم وکرم کرتے ہوئے مبعوث فرمایا ، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے : ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ)) [الأنبیائ:107] ’’اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے سراپا رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘‘ یعنی اُن پر اُن بیماریوں اور ہلاکتوں کے سبب رحم کھاتے ہوئے جن کے نیچے دبے ہوئے وہ لوگ سسکیاں لے رہے تھے۔ غیر عرب ممالک کی سوسائٹیوں اور اَدیان پر ایک نظر (1) یہودیت: تاریخِ یہودیت کا مطالعہ کرنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہودیوں میں بُت پرستی، خیانت ، انبیاء علیھم السلام کے ساتھ بدعہدی اور انہیں قتل کرنا اور انہی جیسی دیگرخطرناک بیماریاں سلیمان علیہ السلام کے آخری زمانے سے ہی پھیل گئی تھیں۔ ان لوگوں نے موسیٰ علیہ السلام کے زمانے سے ہی اللہ کے انبیاء کو جھٹلایا، اور عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے ساتھ بدعہدی کرکے انہیں قتل کرنا چاہا، لیکن اللہ نے ان کی حفاظت فرمائی، اورانہیں آسمان پر اٹھالیا جیسا کہ مذہبِ اسلام کا صریح عقیدہ ہے۔ تورات تو سلیمان علیہ السلام کے زمانہ سے پہلے ہی گم ہوچکی تھی، اس لیے یہود حلال وحرام اور اللہ کی خوشنودی وناراضی کو جاننے کے لیے اپنے علماء کے شخصی بیانات اور ان کی من گھڑت خبروں پر اعتماد کرتے تھے ، تورات تاریخِ یہودیت کے پہلے تین ادوار میں ہی ضیاع اور آتش زنی کا شکار ہوچکی تھی۔ پہلی بار: 586ق۔م میں بابل کے بادشاہ بنو خذنضر کے ہاتھوں، جب اس نے پورے بیت المقدس کو جلادیا تھا۔ دوسری بار : 168ق۔م میں انطاکیہ کے یونانی بادشاہ کے ہاتھوں ،جب اس نے بیت المقدس پر حملہ کیا تھا۔ او رتیسری بار: 70ء میں رومانی بادشاہ کے ہاتھوں، جب اس نے ہیکلِ سلیمانی کو منہدم کردیا، اور مقدس صحیفوں پر قابض ہوکر انہیں روم میں اپنے محل میں منتقل کردیا۔اور یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ یہودی کاہن جو بابل کا رہنے والا تھا، اسی نے اپنے حافظہ کی مدد سے گمشدہ تورات کو عبرانی زبان کی بجائے کلدانی زبان میں لکھا، اور لوگوں کو باور کرانے کی کوشش کی کہ یہی اللہ کی وحی ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ [1] اس طرح یہودیت کچھ مذہبی رسوم، عادات وتقالید اور اوہام وخرافات کا مجموعہ بن گئی، جس کا ابراہیم اور موسیٰ علیہما السلام کے
[1] ۔ الجامع الصحیح للسیرۃ النبویۃ ، سعد المرصفی: ص/174-179، رحمۃ للعالمین:3/77-79، الرحمۃ المہداۃ: ص/304 ، 305۔