کتاب: الصادق الامین - صفحہ 96
زمانۂ جاہلیت
قوموں کی تاریخ میں بدترین زمانہ
زمانۂ جاہلیت سے مراد کیا ہے:
عرب مؤرخین وادباء زمانۂ جاہلیت کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں:
زمانۂ جاہلیتِ اُولی :…جزیرۂ عرب کے اُس قدیم دورِ تاریخ کو کہتے ہیں جو عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے پہلے اور ان کے بعد کا زمانہ ہے۔ پانچویں صدی عیسوی کے اواخر سے قبل جزیرۂ عرب کی تاریخ پر لاعلمی کا ایک دبیز پردہ پڑا ہوا ہے، اس دور سے متعلق جو کچھ بھی بیان کیا جاتا ہے ، اس کی تصدیق کسی قوی تاریخی دلیل وبرہان سے نہیں ہوتی۔
زمانۂ جاہلیت ثانیہ یا مطلق زمانۂ جاہلیت :…اس سے مراد وہ زمانہ لیا جاتا ہے جو اسلام آنے سے ڈیڑ ھ سو (150) سال پہلے کا ہے ۔ سیرتِ نبوی پر خامہ فرسائی کرنے والے اور ادبِ دورِ جاہلیت کے مؤرخین زمانۂ جاہلیت سے مراد زمانۂ جاہلیت کا یہی دورِ قریب لیتے ہیں۔ یہی وہ زمانہ ہے جب عربی زبان پورے طور پر کامل وشامل زبان ہوچکی تھی، اور اسی زمانے کی شاعری کو شعر جاہلی کہا جاتا ہے۔ صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے زمانۂ جاہلیت سے یہی سمجھا تھا۔ ان کے نزدیک زمانۂ جاہلیت سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی سے پہلے کا زمانہ ہے ۔
وہ قرآنی آیات اور احادیثِ نبویہ جن میں ’’جاہلیت‘‘ کا لفظ آیا ہے ، ان میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہ کے نزدیک اس لفظ کا ایک خاص معنیٰ ومدلول تھا۔ یعنی ’’بُت پرستی‘‘ اپنے تمام انوع واقسام کے ساتھ، اور وہ تمام اَوہام وخرافات جنہوں نے عرب اقوام کو اپنے بوجھ تلے اس طرح دبا رکھا تھا کہ ان کے لیے حرکت کرنا بھی مشکل تھا، اور یہ لوگ حماقت، طیش، غیظ وغضب، اندھی عصبیت، جذبۂ انتقام، زنا اور فسق وفجور، رقص وسرود کی محفلیں جمانے کے لیے لونڈیوں کی ٹریننگ، ننگاپن، اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرکے فخر کرنا، بھوک اور قحط سالی کے زمانے میں زندہ جانوروں کے خون پینا، زندہ جانوروں کا گوشت کاٹ کر کھانا، بدشگونی اور گنڈے تعویذ، حسب ونسب پر فخر کرنا اور دوسروں کی تحقیر کرنا جیسی اخلاقی برائیوں میں مبتلاتھے، نیز ہر عرب گھرانے کا ایک خاص بُت ہوتا تھا جس کی وہ لوگ پرستش کرتے تھے۔
اسی طرح غیر عرب قوموں اور ملکوں کی زمانۂ جاہلیت سے پہلے کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ قومیں بھی ہلاکت وبربادی کی کھائی کے کنارے پہنچ چکی تھیں، اور وہ تمام اعتقادی، دینی اورسماجی امراض جو اس وقت عرب قوموں میں اپنا ڈیرہ جماچکے تھے، وہ تمام کے تمام یا ان میں سے بیشتر امراض دیگر مشرقی اور مغربی سوسائٹیوں میں بھی پھیلے ہوئے تھے، اور انسانیت ہر جگہ ان مہلک امراض کے زیر اثر کراہ رہی تھی، اور ان کا مرض اس حدتک ان کی روحوں اور ان کے دلوں کو بیمار بنا