کتاب: الصادق الامین - صفحہ 94
تاریخ وادب کی کتابوں نے ان میں سے بعض کے نام ذکر کیے ہیں؛جیسے قس بن ساعدہ ا یادی، زید بن عمرو بن نفیل، امیہ بن ابی صلت، سوید بن عامر مصطلقی، اسعد ابوکرب حمیری، ورقہ بن نوفل قرشی، زہیر بن ابی سلمیٰ، کعب بن لؤی بن غالب اور عثمان بن حویرث وغیرہم۔ اس سے یقینی طور پر پتہ چلتا ہے کہ ان کے علاوہ بھی کئی لوگ حق کی تلاش میں سرگرداں تھے، لیکن جیسا کہ دنیا کی کسی بھی سوسائٹی کاحال ہوتا ہے کہ صرف مشہور لوگوں کے ہی نام جانے جاتے ہیں۔ یہ تمام لوگ بت پرستی سے بیزار ہوچکے تھے، اور ان تمام اجتماعات، محفلوں اور عادات واطور سے انہیں نفرت ہوچکی تھی جن کا تعلق بُت پرستی سے تھا۔ ان سب کا اللہ کی وحدانیت پر اعتقاد تھا جس کی دعوت ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو دی تھی۔ اس عقیدۂ توحید میں تمام متلاشیانِ حق برابر تھے، چاہے وہ لوگ جنہوں نے مسیحیت کو قبول کرلیا اور راہِ حق سے بھٹک گئے، یا وہ لوگ جو اسی طرح سرگرداں رہے یہاں تک کہ اسلام آگیا، اور انہوں نے اسے قبول کرلیا،یا وہ لوگ جو اپنے دین حنیفی پر وفات پاگئے جیسے زید بن عمرو بن نفیل اور اس کے علاوہ وہ تمام لوگ جن کے نام ہمیں معلوم نہیں ہوسکے۔ بُت پرستی اور شرک باللہ کے خلاف اس مذہبی تحریک کا بلاشبہ جزیرہ عرب میں بُت پرستی کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں زبردست کردار رہا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ عہدِ نبوی سے قریب تر زمانۂ جاہلیت میں پائے جانے والے بہت سے شعراء اور اہم شخصیتوں نے بتوں کا مذاق اڑایا، اور ان کی پرستش کا انکار کردیا۔ لیکن اس سے یہ بات ہرگز نہیں سمجھنی چاہیے کہ مشرکینِ عرب عام طور پر اور مشرکینِ مکہ خاص طور پر توحید کی دعوت کو قبول کرنے اور بُت پرستی کا انکار کردینے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھے، بلکہ اس کے برعکس جب ہم ابتدائے اسلام کی تاریخ اور مشرکین کی اس سے عداوت اور دعوتِ اسلامیہ کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے انسانی دل ودماغ میں جتنے ممکن اسباب ووسائل کا خیال گُزرسکتا تھا، ان تمام کا مشرکین کی طرف سے اختیار کرنا اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ بت پرستی کی جڑیں ان کے دلوں اور ذہنوں میں اتنی گہرائی تک اتری ہوئی تھیں کہ دعوتِ اسلامیہ کو قبول کرنے کی کوئی ادنیٰ صلاحیت بھی ان کے اندر باقی نہیں رہی تھی۔ خاص طور سے اہلِ مکہ جو تمام عربوں کی نظر میں نہایت معزز ومکرم اور اہلِ سیادت وقیادت جانے جاتے تھے ، یہ لوگ اس لا علاج اعتقادی مرض میں مبتلا تھے کہ انہیں یہ سب کچھ اپنے بتوں کی برکت سے ملا ہے، اور یہ کہ ان کی پرستش کا انکار کردینا ، انہیں منہدم کردینا، اورمکہ کو ان سے پاک کردینا اس بات کے مترادف ہے کہ انہیں آسمانِ عزت وشرف سے گراکر ذلت وحقارت کے گڑھے میں پہنچا دینا ہے۔ اس لیے وہ ذہنی طور پر اس کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں تھے کہ وہ اپنے باطل دین کو چھوڑ کر جس کی بنیاد بُت پرستی اور اوہام وخرافات پر ہے، اس اسلام کو قبول کرلیں جسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تھے، اور جس کی بنیاد ایک اللہ کی عبادت اور شرک کے تمام اقسام کے انکار پر ہے ۔ اس شدید گھٹا ٹوپ تاریکی، اخلاقی انحطاط، جاہلی رسوم وعادات، اور مبغوض ترین بُت پرستی کے ماحول میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، تاکہ ان تمام خرابیوں کا خاتمہ کرکے عقیدہ توحید اور دینِ اسلام کی بنیاد رکھیں۔ عالمِ