کتاب: الصادق الامین - صفحہ 93
دینِ ابراہیمی کی تلاش ایک دینی تحریک اسلام سے قبل بلادِ عربیہ کی دینی حالت کا علم ہوا، یہودیت اور نصرانیت دونوں ہی مذاہب زوال پذیر اور توحید ِخالص سے یکسر دُور ہوچکے تھے جو اَدیان سماویہ کی بنیاد ہے۔ بُت پرستی کی بنیاد یکسر باطل پر ہے، عربوں نے اُس عقیدۂ توحید کو گنوادیا تھا جو انہیں اپنے آباء ابراہیم واسماعیل علیہما السلام سے وراثت میں ملا تھا، اور صنم پرستی اور وثنیت کے بھنور میں اپنی ناک تک ڈوب چکے تھے بلکہ اس میں بالکل غرق ہوگئے تھے۔ دعوتِ توحید اور ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے دین سے اس خطر ناک دُوری کے باوجود عرب سوسائٹی میں بہت سے ایسے لوگ پائے گئے جنہوں نے بتوں کی پرستش کا انکار کردیا، اور ابراہیم علیہ السلام کے صحیح دین کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگے۔ ابن اسحاق نے لکھا ہے کہ ایک بار اہلِ قریش اپنے ایک بُت کے پاس خوشیاں منارہے تھے کہ ان کے درمیان سے ورقہ بن نوفل، عبیداللہ بن جحش، عثمان بن حویرث اور زید بن عمرو بن نفیل نکل گئے، اور اس بات کا برملا اعلان کردیا کہ ہماری قوم کا اُس دینِ صحیح سے کوئی تعلق باقی نہیں رہا جسے ابراہیم علیہ السلام لے کر آئے تھے ، اور یہ کہ ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا کہ ہم اپنے لیے ایک صحیح دین تلاش کریں۔ چنانچہ ورقہ بن نوفل نے مسیحیت سے اپنا رشتہ استوار کرلیا، عبیداللہ بن جحش یونہی سرگرداں پھرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اسلام کی نعمت سے نوازا، اور عثمان بن حویرث روم جاکر مسیحی ہوگیا۔اور زید بن عمرو بن نفیل نے بُت پرستی سے کنارہ کشی اختیار کرلی، اور اپنی قوم کے دین کو چھوڑ دیا، لیکن اس نے یہودیت یا مسیحیت کو قبول نہیں کیا، یہاں تک کہ اُس نے دین حنیفیت پر وفات پائی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے خیر اور بھلائی کی گواہی دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’وہ قیامت کے دن ایک الگ امت کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔ ‘‘ محمد بن اسحاق نے سعید بن زید بن عمروبن نفیل اور عمربن خطاب رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ ان دونوں صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا ہم زید بن عمروبن نفیل کے لیے دعائے استغفار کریں؟ تو آپ نے فرمایا:’’وہ ایک الگ امت کی حیثیت سے اٹھایا جائے گا۔ ‘‘ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عمر رضی اللہ عنھما سے زید بن عمرو بن نفیل کی تلاشِ دینِ ابراہیمی میں بلادِ شام تک جاپہنچنے کی روایت نقل کی ہے، جس کے آخر میں اس کا یہ قول آیا ہے کہ اے اللہ! میں گواہی دیتا ہوں کہ میں دینِ ابراہیمی پر ہوں۔ [1] دینِ حق کی تلاش کرنے والے ایسے لوگ صرف مکہ ہی میں نہیں تھے ، بلکہ دیگر قبائلِ عرب میں بھی پائے جاتے تھے ۔
[1] ۔ فتح الباری:7/142، حدیث (3727)۔