کتاب: الصادق الامین - صفحہ 92
ایسا کیا اور پھر ابن ثامر پر ضرب لگائی اور اسے قتل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے بعد بادشاہ بھی فوراً مرگیا اور تمام اہل ِنجران نے عبداللہ بن ثامر کے دین عیسائیت کو قبول کرلیا۔ نجران میں مسیحیت کی ابتدا یہیں سے ہوئی۔ [1] عیسائی مبلغین اور حبشہ کے نصاریٰ اور شاہانِ روم کی انہی کوششوں کے نتیجے میں نجران اور اس کے گرد ونواح میں عیسائیت خوب پھلی پھولی، اور ابرہہ کے دور میں ان علاقوں میں بہت سے گرجے بنائے گئے ۔ وہی ابرہہ جس کی قیادت میں حبشہ کے نصرانی نجران میں داخل ہوئے تھے ۔ ابرہہ نے ان گرجوں کے زیب وزینت اور آرائش کا بڑا اہتمام کیا۔ ان میں سب سے مشہور شہرِ صنعاء کا’’قُلّیس‘‘ نامی گرجا تھا، اس پر اس نے سونے، چاندی اور مختلف اقسام کے ہیروں اور جواہرات کے نقوش کَندہ کروائے، اور اس میں سونے اور چاندی کے بنے ہوئے صلیب اور ہاتھی کے دانت اور آبنوس کے بنے ہوئے منبر نصب کروائے ۔ اسلام آنے کے بعد اہل ِصنعاء نے اسے مسجد میں بدل دیا جو اب تک موجود ہے۔[2] شام میں رہنے والے عرب قبائل غساسنہ اور ان کے علاوہ دیگر قبائل مثلاً عاملہ،جُذام، کلب ، اور قضاعہ میں بھی عیسائیت پھیل گئی تھی، اور عراق میں رہنے والے عرب قبائل تغلب اور عیاد وبکر کے درمیان بھی عیسائیت اپنے قدم جما چکی تھی۔ اور یہی حال حیرہ کا بھی تھا ، حالانکہ وہاں کے حُکّام اور عام لوگوں کا مذہب بُت پرستی تھا، اور اپنے آپ کو عبادیین یعنی اللہ کے بندے کہتے تھے، تاکہ پڑوس میں رہنے والے دیگر بُت پرستوں سے اپنے آپ کو ممتاز رکھ سکیں ، البتہ آلِ منذر کے حکام نے بہت بعد میں نصرانیت قبول کی اور کہا جاتا ہے کہ عمرو بن منذر کی ماں ہندنے وہاں ایک گرجا بنوایا تھا، بعض کا کہنا یہ ہے کہ اس گرجے کو ہند بنت منذر نے بنوایا تھا، جس کے بھائی نعمان بن منذر نے عیسائیت قبول کرلی تھی، یہ نعمان آلِ منذر کا آخری فرماں رواتھا۔ [3] مکہ میں حبشی غلاموں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی تھی، اور کہا جاتا ہے کہ روم کے عیسائیوں کی بھی ایک جماعت وہاں رہتی تھی،اور مرّ الظہران میں ایک عیسائی راہب رہا کرتا تھا۔ مؤرخ یعقوبی کا خیال ہے کہ اسلام سے پہلے قریشیوں کی ایک جماعت نے عیسائیت قبول کرلی تھی ،انہی میں سے ورقہ بن نوفل ، عتبہ بن ابی لہب اور عثمان بن حویرث الأسدی وغیرہم تھے۔ بعض کا یہ بھی خیال ہے کہ مدینہ میں بھی کچھ عیسائی پائے جاتے تھے، اور بلادِ طی اور دومۃ الجندل میں مسیحیت خوب پھیلی ہوئی تھی۔ ان معلومات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض عرب قبائل میں عیسائیت پھیلی ہوئی تھی، برخلاف یہودیت کے جو فلسطین ویمن سے ہجرت کرکے آنے والے یہودی قبائل میں ہی سمٹ کر رہ گئی تھی۔ لیکن قبائلِ عرب کے مسیحی اپنے جدید دین کی گہرائیوں تک نہیں پہنچے تھے، اور ان کا تعلق اپنے دینِ جدید سے ایسا گہرا نہیں تھا، جیساکہ یہودیوں کا اپنے دینِ یہودیت سے تھا، جس کی بنیاد انتہاء پسند عصبیت اور تنگ نظری پر تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ان عرب مسیحیوں نے اپنے دین میں اس بت پرستی کی بہت سی عادات وصفات کو ملادیا تھا جو زمانہ ٔقدیم سے ان قبائل میں رچی بسی تھیں۔ اس لیے کہ انہوں نے اپنے دینِ جدید کے صرف ظاہری امور کو ہی جاناتھا، اس کی تاریخی جڑوں سے وہ بالکل نا واقف تھے۔ [4]
[1] ۔ السیرہ النبویہ، ابن ہشام:ص/31-34۔ [2] ۔ مکہ، فی عصر ما قبل الإسلام : ص/90۔91۔ [3] ۔ العصرالجاہلی: ص/99،100۔ [4] ۔ مکہ ،فی عصرما قبل الإسلام : ص/91-93۔