کتاب: الصادق الامین - صفحہ 91
(کپڑا بننے کا کاروبار) تھا، اور ہمیشہ ہی اوس و خزرج والوں کے درمیان عداوت کے بیج بونے کے لیے سازشیں کرتے رہتے تھے، جس کا نتیجہ بالآخر یہ ہوا کہ ان کے درمیان کینہ اور بغض کی بنیاد پڑ گئی، اور اوس وخزرج دونوں یہودیوں کے بنائے ہوئے ہتھیاروں کے ذریعہ خونی جنگوں میں مشغول ہوگئے۔ دونوں ایک دوسرے کو ایک طویل مدت تک گاجر مولی کی طرح کاٹتے رہے، بالآخر اسلام کی دولت پانے کے بعد دونوں قبیلے آپس میں اللہ کے لیے محبت کرنے والے بھائی بھائی ہوگئے۔ لیکن ان کے خلاف یہودیوں کی سازشیں بند نہیں ہوئیں، بلکہ اسلام آنے کے بعد ہمیشہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی کوششیں کرتے رہے، اور گھناؤنی سے گھناؤنی سازش سے باز نہیں آئے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف ہمیشہ کفارِ قریش اور دیگر اہلِ کفر وشرک کو ابھارتے رہے۔ اسی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مدینہ سے جلا وطن کرنے پر مجبور ہوگئے، پھر جب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا مبارک زمانہ آیا تو انہوں نے یہودیوں کی مسلسل شرپسندی، مسلمان کے درمیان فتنہ انگیزی، اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں رچنے کے سبب انہیں خیبر اور اس کے آس پاس کے تمام علاقوں سے نکال بھگایا۔ چنانچہ چند ایک افراد کے علاوہ وہ سب کے سب جزیرۂ عرب سے نکل کر دور دراز علاقوں میں چلے گئے۔[1] یمن اور شمالی جزیرہ کے مغربی اور مشرقی علاقوں میں عیسائیت پھیل گئی تھی، اس کی نشر واشاعت 340ء سے شروع ہوئی، جب اہلِ حبشہ یمن پر قابض ہوئے، جو وہاں 378ء تک باقی رہے۔ ان علاقوں پر رومانیوں کے قبضہ کے بعد عیسائیت کی تبلیغ اور تیز ہوگئی، اس لیے کہ وہ ان علاقوں پر اپنے اثر ورسوخ کو مضبوط کرنے کے لیے عیسائی مبلغین کی جماعت درجماعت بھیجتے رہے۔ ابن اسحاق نے نجران کے علاقہ میں مسیحیت کے داخلہ سے متعلق وہب بن منبہ کی ایک حدیث روایت کی ہے جس میں لکھا ہے کہ شام کا فیمیون نامی ایک آدمی جو نیکی اور ظہور کرامات کے ساتھ مشہور تھا ایک دوسرے آدمی کے ساتھ بلادعربیہ کے سفر پر نکلا، راستے میں کچھ لوگوں نے ان دونوں کو اپنا غلام بنالیا اور نجران جاکر انہیں بیچ دیا۔ ان دنوں اہل نجران کا مذہب بُت پرستی تھا۔ فیمیون کونجران کے ایک معزز آدمی نے خرید لیا، اس نے دیکھا کہ وہ رات کو نماز پڑھتا ہے، اور اس کا گھر اس کے وجود سے پُرنور رہتا ہے۔ اس نے اس سے اس کے مذہب کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے دین کا ماننے والا ہے، اور موقع کو مناسب پاکر یہ بھی بتایا کہ نجران والوں کا دین باطل ہے ، اور یہ کہ صرف اللہ برحق معبود ہے، اور کھجور کا وہ درخت جسے اہلِ نجران پوجتے ہیں نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اور یہ کہ اگر وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرے گا تو وہ اسے گرادے گا، پھر اس نے دعا کی تو ایک تیز ہوا چلی جس کے سبب وہ درخت جڑ سے اکھڑ کر گرگیا جس کے نتیجے میں اس معززآدمی نے عیسائیت قبول کرلی، اور دیگر بہت سے لوگوں نے بھی اس کی پیروی کرلی۔ یہ بھی کہا جاتاہے کہ ایک دوسرا نیک آدمی جس کا نام عبداللہ بن ثامر تھا اس کے سبب بھی نجران میں عیسائیت خوب پروان چڑھی۔ وہاں کے بادشاہ نے اسے گرفتار کرلیا ،اور اسے شدید ترین عذاب میں مبتلا کیا، اور اسے قتل کرنا چاہا ، لیکن وہ ایسا نہ کرسکا۔ تب ابن ثامر نے اس سے کہا کہ جب تک تم اللہ کی وحدانیت کو بیان نہیں کروگے مجھے قتل نہیں کرسکوگے، بادشاہ نے
[1] ۔ العصر الجاہلی: ص/ 97،98۔