کتاب: الصادق الامین - صفحہ 87
امام بخاری نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں نے عمرو بن لحیّ خزاعی کو دیکھا کہ وہ جہنم کی آگ میں اپنی انتڑیاں گھسیٹ رہا تھا‘‘[1]… اور ابن اسحاق نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ عمرو بن لُحیّ پہلا شخص تھا جس نے دینِ ابراہیمی میں تحریف کی، بُت پرستی کی بنیاد رکھی، جانوروں کو بُتوں کے نام پر چھوڑا، اور انہیں ان کی نذر کیا۔‘‘ [2] اسلام سے پہلے عربوں میں عام بت پرستی : آدمی جب تاریخ کے جھروکے سے اقوامِ عرب کے دین ، اور ان خرافات واَوہام پر ایک طائرانہ نظر ڈالتا ہے جن سے وہ چمٹے ہوئے تھے، اوراُن بُتوں پر جن کی وہ پرستش کرتے تھے، تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ ان کے پاس ابراہیم واسماعیل علیہما السلام کے دین کا صرف نام ہی باقی رہ گیا تھا، عملی زندگی میں اُن کا دین ومذہب بتوں کی پرستش (جیساکہ میں نے اوپر لکھا ہے ) اور خرافات واَوہام کے سوا کچھ نہ تھا۔ آئندہ صفحات میں رُوحوں اور جنوں کے بارے میں ان کے اعتقادات کا بیان آئے گا، اور یہ بھی بتایا جائے گا کہ ہر قبیلہ بلکہ ایک قبیلہ کے مختلف خاندانوں کے الگ الگ اصنام ہوتے تھے، جن کی بارگاہ میں وہ بزعمِ خویش پناہ لیتے تھے، اُن سے تبرک حاصل کرتے تھے، اُن سے قوت مانگتے تھے، اور اُن سے دنیاوی منافع وحاجات طلب کرتے تھے۔ اِ س لیے میں کہہ سکتا ہوں کہ اُن کی شبانہ روز کی زندگی پوری طرح بُت پرستی سے وابستہ تھی، اوروہ عقیدۂ توحید جس کی بنیاد ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے رکھی تھی، بُتوں کی بھیڑ میں گم ہوچکا تھا۔اُن کے پاس عقیدۂ توحید کا صرف اتنا حصہ باقی رہ گیا تھا کہ اللہ ہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے،اور دنیا اور اس کے کاموں میں تصرف بُتوں کے پاس تھا، جیساکہ موجودہ زمانہ میں ہندوؤں کا عقیدہ ہے ، جس کے مطابق وہ اپنی ہر دنیاوی ضرورت اور ہر معاملہ کے لیے الگ الگ بُت رکھتے ہیں۔ غرض کہ عرب اقوام میں بتوں، پتھروں اور درختوں کی پرستش ہرطرف عام تھی، فتحِ مکہ کے وقت خانۂ کعبہ کے گرد تین سو ساٹھ (360) سے زیادہ بُت پائے جاتے تھے، انہی میں قریش کا سب سے بڑا بُت ’’ہُبل‘‘ تھا۔ ابن الکلبی وغیرہ نے خاص طور سے مشرکینِ مکہ اور بالعموم مشرکینِ عرب کے بہت سے بُتوں کے نام گنائے ہیں۔ اُن عربوں کی گمراہی اور بے بصیرتی کا عالم یہ تھا کہ وہ اُن بتوں کے پاس بڑے بڑے تراشے ہوئے پتھر نصب کرتے تھے، اور اُن پر اُن مذبوح جانوروں کا خون بہاتے تھے جنہیں وہ اپنے معبودوں اور بُتوں کے نام سے ذبح کرتے تھے، اُن پتھروں کو وہ لوگ مقدس مانتے تھے ،اور اعتقاد رکھتے تھے کہ یہ پتھر بعض روحوں کی جگہیں ہیں۔ اُن کی ضلالت وگمراہی یہ بھی تھی کہ وہ اُن گھروں کا حج کرتے تھے جن میں وہ بُت رکھے جاتے تھے، اُن گھروں کو کعبہ کا نام دیتے تھے، جیسے کعبۂ ذی الخلصہ، کعبۂ یمانیہ، اور کعبۂ طائف جو اُن کے بُت (اللات) کا گھر تھا۔ اُن کے نزدیک نذرونیاز اور چڑھاوے چڑھانے کے بہت سے طریقے تھے،اور اپنے بتوں کے بارے میں ان کے
[1] ۔ صحیح البخاری :حدیث(3521)،صحیح مسلم: حدیث(2856)۔ [2] ۔ مختصر السیرۃ : ص/40-42۔