کتاب: الصادق الامین - صفحہ 86
بن الیاس بن مضر اور اس کے بیٹے تھے۔ انہوں نے ’’سواع‘‘ نامی بُت بنایا جسے ینبع میں ایک مکان میں رکھا، اور کلب بن وبرہ نے دُومۃ الجندل میں’’ودّ‘‘ نامی ایک بُت بنایا، اور طئ کے قبیلہ اَنعم اور مذحج کے جرش والوں نے جرش میں ’’یغوث‘‘ نامی ایک بُت بنایا، اور قبیلۂ حمدان کی ایک شاخ خیوان نے بلادِ یمن کے علاقۂ حمدان میں ’’یعوق‘‘ نامی بت بنایا، اور حمیر کے ذوالکلاع نے سرزمینِ حمیر میں’’نسر‘‘ نامی بُت بنایا۔ [1] اللہ تعالیٰ نے سورۂ نوح آیات(21-23) میں ان بتوں کے بارے میں فرمایاہے: ((قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ﴿21﴾ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ﴿22﴾ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا)) ’’نوح نے کہا: میرے رب! انہوں نے میری نافرمانی کی ہے اور ان لوگوں کی پیروی کرنے لگے ہیں جن کے مال او راولاد نے ان کے خسارے میں اضافہ کردیاہے، اور ان لوگوں نے بڑی زبردست سازش کرلی ہے، اور کہا کہ لوگو! تم اپنے معبودوں کو ہرگز نہ چھوڑو، اور تم ’’وَدّ‘‘کو نہ چھوڑو، اور نہ ’’سواع‘‘ کو اور نہ ’’یغوث‘‘ اور ’’یعوق‘‘اور ’’نسر‘‘ کو۔‘‘ مکہ اور حجاز میں بتوں کو کس نے داخل کیا: (1) ابن الکلبی نے لکھا ہے کہ ایک بار عمرو بن لُحیّ جدہ کے ساحل پر آیا، تو اسے وہاں کچھ اصنام ملے جنہیں سمندر کی موجوں نے ساحل پر پہنچا دیا تھا،وہ انہیں تہامہ لے گیا، اور قبائلِ عرب کو اُن کی پرستش کی دعوت دی۔ (2) بعض کا خیال ہے کہ عمرو بن لُحیّ خزاعی (جو اپنے زمانہ میں مکہ کا رئیس تھا) کچھ بُت اور مجسّمے ملکِ شام سے مکہ لے کر آیا تھا۔ ایک بار جب وہ شام گیا تو وہاں اُس نے عمالقہ کو بُتوں کی پرستش کرتے دیکھا، اسے یہ بات اچھی لگی، اور ایسا کرنا صحیح سمجھا، چنانچہ اُس نے اُن سے کہا کہ کیا تم مجھے اِن بُتوں میں سے ایک دوگے؟ انہوں نے اسے ایک بت دے دیا جس کا نام ہُبل تھا، اسے وہ مکہ لے کر آیا، اور ایک جگہ اُسے نصب کردیا، اور لوگوں کو اس کی عبادت وتعظیم کا حکم دیا۔ لوگوں نے اس کی بات مان لی، پھر دیکھتے ہی دیکھتے تمام اہلِ حجاز مکہ والوں کی پیروی کرنے لگے۔ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ کے گھر ’’کعبہ‘‘ کے خُدّام اور حرم میں رہنے والے تھے۔ (3) کچھ لوگوں کا خیال یہ ہے کہ ایک بار عمرو بن لُحیّ ایام حج میں تلبیہ کہہ رہا تھا، کہ شیطان ایک معمر آدمی کی صورت میں اس کے ساتھ تلبیہ کہنے لگا۔ عمرو نے جب ’’لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ‘‘کہا تو بوڑھے نے کہا:’’ اِلَّا شَرِیْکًا ہُوَ لَکَ‘‘…’’یعنی ایک معبود کے سوا جو تیرا شریک ہے۔‘‘ عمرو نے جب یہ سنا تو انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیا ہے؟ بوڑھے نے کہا: کہو: ’’تملکہ وما ملک‘‘(یعنی تو اُس شریک کا اور اُن سب چیزوں کا مالک ہے جن کا وہ مالک ہے) عمرو اِسی طرح کہنے لگا، اور سارا عرب ایسا ہی کہنے لگا۔ [2]
[1] ۔ ابن الکلبی:ص/ 9-11 ، اور سیرۃ ابن ہشام:1/81،82۔ [2] ۔ ابن الکلبی:ص/51،55،56، اور مکہ ،فی عصرما قبل الإسلام :ص/76، اور مختصر السیرہ: ص40-42۔