کتاب: الصادق الامین - صفحہ 85
دینی زندگی جاہلیت ِ اُولیٰ کے عرب بُت پرست : زمانۂ جاہلیتِ أولیٰ کے اکثر وبیشتر عرب بُت پرست تھے، اور بے شمار خدائی طاقتوں پر ایمان رکھتے تھے جن کا ظہور ستاروں اور دیگر طبیعیاتی مظاہر میں ہوتا تھا۔ اور بے شمار ایسی خفیہ قوتوں پر بھی ایمان رکھتے تھے جو (ان کے عقیدہ کے مطابق) نباتات، جمادات، پرندوں اور دیگر حیوانات میں پائی جاتی تھیں۔ اور باقی ماندہ کلدانیوںاور صابئہ (بے دینوں) سے اثرقبول کرکے ستاروں اور کواکب کی بھی پرستش کرتے تھے۔ جنوب کے عرب قبائل ایک ثالوثِ مقدس ( علیھم السلام O رحمۃ اللہ علیہ Y TRINITY)پر اعتقاد رکھتے تھے، جو چاند(وُدّ نامی صنم) سورج (لات نامی صنم) اور زُہرہ (عُزّیٰ نامی بُت) سے مل کر بنتے تھے۔ اور بعض قبائل توانسانوں کی تقدیس کرتے تھے۔ تمیم، عُمان، بحرین اور بعض دیگر قبائلِ عرب میں مجوسیت پھیلی ہوئی تھی، یعنی اُن کا ایمان تھا کہ تدبیر عالم کا کام دو معبود(نور وظلمت یا خیر وشر) مل کرکرتے ہیں۔ عربوں کا قبولِ دینِ ابراہیمی: بادیہ نشین اور شہروں میں رہنے والے اکثر قبائلِ عرب نے اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی دعوت کے ذریعہ دینِ ابراہیمی کو قبول کرلیا، صرف ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے، اور شرک سے بچنے لگے، اور طویل مدت تک اسی حال پر قائم رہے، پھر لوگ بدلتے گئے ، شرک باللہ ، اوہام وخرافات اور ان بدعتوں کی طرف لوٹنے لگے جن کی حقانیت کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں کی تھی۔ عرب ِ مستعربہ نے اسماعیل وابراہیم علیہما السلام کے دین کوبھُلادیا، ان کے پاس اُس دین کے نام اور تعظیمِ کعبہ کے سوا کچھ بھی باقی نہ رہا تھا۔ اُن میں شرک کی ابتدا یوں ہوئی کہ جب وہ لوگ مکہ سے تجارتی سفروں میں نکلتے تو اپنے ساتھ حرم کے پتھر رکھ لیتے، اور جب کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے تو انہیں اپنے آگے رکھ کر ان کے گرد طوافِ کعبہ کی طرح طواف کرتے، اور اللہ کو پکارتے، اور جب وہاں سے چلنے لگتے تو ان پتھروں کو اپنے ساتھ لے لیتے۔ اُس کے بعد ایسا ہوا کہ وہ لوگ تو مرگئے، اور اُن کی اولاد میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جو اپنے باپ دادوں سے بھی زیادہ جاہل ونادان تھے، چنانچہ وہ ان پتھروں کی تعظیم کرنے لگے ، اور مرورِ زمانہ کے ساتھ انہیں اپنا معبود بناکر ان کی پرستش کرنے لگے۔ بُتوں کو کن لوگوں نے اپنا معبودبنایا: اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام کی اولاد میں سے جس نے سب سے پہلے صنم گری کی، ان کے نام رکھے، وہ ہُذیل بن مدرکہ