کتاب: الصادق الامین - صفحہ 83
اقتصادی زندگی
صنعت وحرفت کی قسمیں اور تجارت واقتصاد:
دورِ جاہلیت کے تمام عرب ایک ہی طرح کی زندگی نہیں گزارتے تھے۔ پارچہ بافی( کپڑے بُننا) چمڑوں کا کاروبار اوران کے علاوہ دیگر صنعتیں اہلِ یمن اور حیرہ اور حدودِ شام پر رہنے والوں میں معروف تھیں۔ اسی طرح جنوب ومشرق اور حجاز کے علاقوں میں، مثال کے طور پر یثرب، خیبر، طائف اور وادئ قریٰ، میں کاشتکاری کا اچھا خاصا رواج تھا۔ اور بلادِ عربیہ میں تجارت کی باگ ڈور اہلِ مکہ کے ہاتھوں میں تھی۔ ہر سال حج کے زمانہ میں مکہ اور اس کے گردونواح میں عربوں کے مشہور ترین تجارتی بازار لگتے تھے، اور ان میں ادبی محفلیں منعقد ہوتی تھیں۔ اور مکہ کے تجارتی قافلے جزیرہ نمائے عرب کے اطراف واکناف میں پہنچتے تھے، اور پڑوسی ممالک ، حبشہ، فارس، اور روم والوں کے ساتھ ان کے گہرے تجارتی تعلقات تھے۔
مکہ کی تجارتی اور اقتصادی زندگی میں سودی کاروبار کا بڑا عمل دخل تھا، لوگ اپنا مال ودولت بڑھانے کے لیے اکثر وبیشتر سود کا سہارا لیتے تھے، بسا اوقات سود اصل قرض سے کئی گنا زیادہ ہوجاتا تھا۔
مضاربت نوع بہ نوع اقسام، فرضی سامانِ تجارت کی فروخت، یا اُن سامانوں کی فروخت جو ابھی بیچنے والے کے پاس نہیں پہنچے ہوتے، تُجارِمکہ کے درمیان عام تھے۔ اسی طرح لوگ کاشت کی پیداوار کٹنے سے بہت پہلے بیچ دیتے تھے، جس کے نتیجہ میں بہت سے خاندان مفلس ہوجاتے تھے، اور بہت سے شب وروز کے درمیان مالدار ہوجاتے تھے۔ اہلِ مکہ قرب وجوار کی وادیوں اور گھاٹیوں میں چوپائے پالنے کا کام بھی کرتے تھے،اور اس کام کے لیے اپنے غلاموں کو استعمال کرتے تھے۔ بعض اہلِ مکہ اور ساحلِ سمندر پررہنے والے عرب قبائل اپنی اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کے لیے شکار بھی کیا کرتے تھے۔
اور بہت سے بدوی قبیلے جو تہامہ، نجد، صحرائے نفود، وادئ شام ودہناء اور بحرین میں بسے ہوئے تھے، اُن کا کام بھیڑ بکریاں پالناتھا۔ اور اُن میں سے اکثر کی روزی روٹی کا دار ومدار صرف لوٹ کھسوٹ کے مال پر تھا، بالخصوص نچلے طبقہ کے لوگ اور وہ غریب انسان جن کے پاس نہ بھیڑ بکریاں ہوتی تھیں ، اور نہ تجارت وکاشتکاری۔ ایسے لوگ لوٹ کھسوٹ کے لیے جماعتیں (گروپ اور گینگ) بنالیتے تھے، اور آنے جانے والے تجارتی قافلوں کا انتظار کرتے تھے، اور موقع پاتے ہی ان پر حملہ کردیتے، اُن میں سے اکثر کو قتل کردیتے ، اور ان کا مال ومتاع لوٹ لیتے ۔ یہی سبب ہے کہ ہمیں ان تجارتی قافلوں کی خبروں میں یہ بھی ملتا ہے کہ وہ لوگ صحرائی ڈاکوؤں اورچوروں سے اپنی حفاظت کے لیے اپنے ساتھ تجربہ کارمحافظین (گارڈس) کو لے کر چلتے تھے، جن کی تعدادکبھی کبھارتین سوتک ہوتی تھی۔