کتاب: الصادق الامین - صفحہ 82
عورتوں کو شادی نہیں کرنے دیتے تھے۔ گویا دورِ جاہلیت میں اکثر کے نزدیک عورت ایک گھٹیا چیز اور ذلیل مخلوق تھی۔ جب اسلام آیا تو اس نے عورت کو عزت دی، اس کے مقام کو بلند وبالا کیا، اور اسے اس کے تمام حقوق دیے۔
لیکن عورتوں کے ساتھ عربوں کا یہ گھناؤنا برتاؤ عام نہیں تھا، بلکہ سردارانِ قبائل اور بڑے گھرانوں میں عورتوں کی بڑی قدر کی جاتی تھی۔ایسے گھرانوں کی عورتیں اپنا شوہر خود پسند کرتی تھیں، اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ نہ ہونے پر اپنے شوہروں کو چھوڑ کر باپ کے گھر آجاتی تھیں۔ اور اگرکوئی شخص اُن کے ذریعہ پناہ لیتا تھا تو وہ ان کی حمایت کرتی تھیں۔ دیگر بہت سے عرب بھی اپنی بیٹیوں کا بڑا خیال رکھتے تھے، ان کے ساتھ نہایت ہی نرمی اور ہمدردی کا برتاؤ کرتے تھے، اور ان کی ناز برداری کرتے تھے، اور یہ رائے رکھتے تھے کہ بیٹیاں بیٹوں سے زیادہ اپنے ماں باپ کے لیے وفادار ہوتی ہیں۔
بیٹیوں کی تکریم اُس زمانہ کے لوگ اس طرح بھی کرتے کہ وہ اپنی کنیت اپنی بیٹیوں کے نام کے ساتھ رکھتے تھے۔ بیوی کا بھی دورِ جاہلیت میں ایک اونچا مقام تھا۔ اسی طرح بیوی کے لیے شوہر سب کچھ ہوتا تھا، اور عورت کو لوگ اپنی آبرو اور ناموس کااہم ترین حصہ سمجھتے تھے۔ اس سے زیادہ انہیں غضبناک کرنے والی کوئی بات نہیں تھی کہ ان کی عورتوں کو کوئی قیدی بنالے۔ اور اگر کبھی ایسا ہو جاتا تھا تو اپنا سب کچھ داؤ پر لگا دیتے، اور مشکل ترین راہوں سے گزر کر ان کو جالیتے، اور انہیں آزاد کراتے، اور اس ننگ وعار کو اپنے آپ اور خاندان وقبیلہ سے دھوتے۔ لوگ اپنی عورتوں کو جنگوں میں اپنے ساتھ لے جاتے، تاکہ وہ ہمت بڑھانے والے اور غیرت وحمیت جگانے والے ترانوں کے ذریعہ اُن کی ہمت افزائی کرتی رہیں۔
معلوم ہوا کہ عورت عہدِ جاہلیت میں تمام علاقوں اور تمام قبائل کے نزدیک مہمل شے نہیں سمجھی جاتی تھی، بلکہ بہت سے قبائل،اور بہت سے سادات واشراف کے نزدیک اس کابڑا اونچا مقام تھا۔ [1]
****
[1] ۔ دیکھئے : تاریخ العرب العام:50،الحیاۃ العربیہ فی الشعرالجاہلی:ص/230 للدکتور احمد محمد الوافی، العصرالجاہلی: 67-75 ، کتاب المحبّر: ص/132، المرأۃ بین ہدایۃ الإسلام وغویۃ الإعلام للشیخ صلاح الدین مقبول:47-60۔