کتاب: الصادق الامین - صفحہ 81
نفرت، اُن کی صفات تھیں۔
مذکور بالا اچھی خصلتوں اور ان کے علاوہ بہت سی دیگر خوبیوں کیساتھ عہدِ جاہلیت کی سوسائٹی میں بہت سی بُری عادتیں اور بُرے اخلاق بھی پھیلے ہوئے تھے، جو اُن عربوں کے ساتھ لگے رہے، یہاں تک کہ اسلام آگیا، تب ان کا خاتمہ ہوا، اور اسلام نے ان کے اخلاق کریمانہ کو مزیدجِلابخشا۔
اُن اخلاقی آفتوں میں سے شراب نوشی اُن کی گھٹی میں پڑی تھی، سوسائٹی میں چند افراد کے سوا سبھی اس مرض میں مبتلا تھے۔ اور زیادہ تر اس کی تجارت یہود ونصاریٰ کرتے تھے۔ اور شام وعراق سے نوع بنوع شراب لاکر عربوں کو مہنگے داموں بیچتے تھے۔
انہی اخلاقی آفتوں میں سے زناکاری بھی تھی۔ یہ فحاشی لونڈیوں میں عام تھی، اوراکثر جاہلی عرب اس گناہ کی طرف اپنی نسبت کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے۔ اِن بدکار مردوں نے آزاد شریف عورتوں کو اپنے لیے حلال بنانے کے نہایت ہی گھناؤ نے طریقے ایجاد کر رکھے تھے، اگرچہ بہت سے شرفائے عرب کے نزدیک آزاد شریف عورت کا مقام بڑا اونچا تھا۔
اُن گھناؤ نے طریقوں میں سے ایک یہ تھا کہ ایک آدمی بہت ساری عورتوں سے بیک وقت شادی کرتا ، دو سگی بہنوں کو بیک وقت اپنی زوجیت میں رکھتااور اگر کوئی آدمی اپنی منکوحہ کو طلاق دے دیتا، یا اس آدمی کا انتقال ہوجاتا تو اس کا بیٹا اس عورت سے شادی کر لیتا۔ کبھی ایسا ہوتا کہ دس آدمیوں سے کم افراد مل کر ایک عورت سے ہمبستری کرتے، اور جب بچہ ہوتا تو وہ عورت اپنی صوابدید کے مطابق اُن میں سے جسے چاہتی اس بچہ کا باپ ٹھہراتی۔ کبھی ایسا ہوتا کہ شوہر اپنی بیوی کوماہواری سے پاک ہونے کے بعد کسی ایسے آدمی کے پاس ہمبستری کے لیے بھیجتا جو شجاعت وسخاوت میں مشہور ہوتا، تاکہ بچہ اسی جیسی صفات والا پیدا ہو۔ ایسا بھی ہوتا کہ دو مرد ہمبستری کے لیے آپس میں بیویاں بدل لیتے۔
مختصر یہ کہ عورت دورِ جاہلیت میں جور وظلم اور تذلیل واہانت کا نشانہ بنائی جاتی تھی۔ لوگ معیوب جانتے تھے کہ اس کے گھر بیٹی پیدا ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
((وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُهُم بِالْأُنثَىٰ ظَلَّ وَجْهُهُ مُسْوَدًّا وَهُوَ كَظِيمٌ)) [النحل:58]
’’اور ان میں سے کسی کو جب لڑکی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو اس کا چہرہ سیاہ ہوجاتا ہے، درآنحالیکہ وہ غم سے نڈھال ہوتاہے۔‘‘
((وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ * بِأَيِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ)) [ التکویر:8،9]
’’اور جب زندہ در گور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا، وہ کس گناہ کے سبب قتل کی گئی؟‘‘
اپنی بیویوں اور بیٹیوں کا جُوا کھیلتے تھے۔ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: دورِ جاہلیت میں آدمی اپنی بیوی اور دولت کا جُوا کھیلتا تھا۔ لوگ عورت کو مالی وراثت اور مہر کی رقم سے محروم کردیتے تھے، اور اُس پر ظلم وزیادتی کرنے کے لیے اسے نہ چاہتے ہوئے اپنی زوجیت میں باقی رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
((وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوا ۚ)) [ البقرہ:231]
’’اور انہیں نقصان پہنچانے کے لیے نہ روکو، تاکہ حد سے تجاوز کرو۔‘‘